ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے ایک سادہ مگر پروقار تقریب میں "ڈاؤ ریب” کا افتتاح کیا۔ ایک فون کال پر اڑتالیس گھنٹوں میں ویکسین مطلوبہ مقام پر پہنچا دی جائے گی۔ ابتدائی طور پر یہ سہولت صوبہ سندھ میں متعارف کرائی گئی ہے جسے بعد میں ملک بھر میں پھیلا دیا جائے گا۔ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے کہا کہ برسوں کی محنتی تحقیق اور ملک کے ریگولیٹری اقدامات کے بعد، ڈاؤ یونیورسٹی نے اوجھا کیمپس میں اینٹی ریبیز ویکسین کی کمرشل پروڈکشن شروع کی، اس کا مکمل کورس 500 روپے میں ہے۔
دستیاب ہو جائے گا۔ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک کو "ڈاؤ ریب” کی 30,000 خوراکیں فراہم کی گئی ہیں، جو اوجھا کیمپس میں ڈاؤ انسٹی ٹیوٹ آف لائف سائنسز نے درآمد شدہ خام مال سے تیار کیا ہے۔یاد رہے کہ ڈاؤ یونیورسٹی نے کورونا وبا کے دنوں میں آئی وی آئی جی امیونو گلوبیولن تیار کی تھی جس کے استعمال سے سیکڑوں کورونا مریضوں کو نئی زندگی ملی۔اس سے قبل ایک اور تقریب میں ڈاؤ یونیورسٹی اور ڈسٹری بیوٹر نیٹ ورک ملر اینڈ فیپس کے درمیان دلچسپی کی ایک یادداشت پر دستخط کیے گئے۔
ملر اینڈ فیپس مرحلہ وار پاکستان بھر میں اے آر وی ڈاؤ ریب کی دستیابی کو یقینی بنائیں گے۔نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اسلام آباد کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 20 لاکھ اینٹی ریبیز ڈوز کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں کتے کے کاٹنے کی ویکسین کا انحصار بیرون ملک سے درآمد کی جانے والی ویکسین پر ہوتا ہے۔اس وقت بھی اینٹی ریبیز ویکسین کی کمی 70 فیصد ہے، مقامی پیداوار کے بعد پاکستان میں اے آر وی کی دستیابی آسان ہو جائے گی۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں ہر سال تقریباً 10 لاکھ افراد کو آوارہ کتے کاٹتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک اندازے کے مطابق 5 سے 6 ہزار افراد ریبیز کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اسلام آباد کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو سالانہ 20 لاکھ سے زائد اینٹی ریبیز ویکسینز کی ضرورت ہے جن میں سے زیادہ تر بھارت سے درآمد کی جاتی ہیں۔