اردوورلڈ کینیڈا( ویب نیوز) چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف ایک سال ملنے کے باوجود انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کروا سکی۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کی، جس میں سنی اتحاد کونسل اور الیکشن کمیشن کے وکلا نے دلائل دیئے۔
سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت پارٹی الحاق کا سرٹیفکیٹ اور فارم 66 ریکارڈ پر ہے، تحریک انصاف نے پارٹی الحاق کا سرٹیفکیٹ اور فارم 66 جاری کیا جس پر چیئرمین گوہر علی خان کے دستخط ہیں۔
وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ الحاق کا سرٹیفکیٹ اور فارم 66 جاری کیا گیا لیکن ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کروائے، پی ٹی آئی نے 22 دسمبر کو فارم 66 اور پارٹی سے الحاق کا سرٹیفکیٹ 13 جنوری کو جاری کیا جب کہ پی ٹی آئی کو کاغذات نامزدگی کے ساتھ پارٹی الحاق کا سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل الیکشن کمیشن سے پوچھا کہ بتائیں غلطی کہاں اور کس نے کی؟ جسٹس منیب نے پوچھا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ سرٹیفکیٹ اس لیے غلط ہیں کہ اس وقت تک چیئرمین کا انتخاب نہیں ہوا؟ جس پر سکندر بشیر نے جواب دیا کہ کاغذات نامزدگی میں خالی ہونے کا مطلب آزاد امیدوار ہے، جب سرٹیفکیٹ جمع کرواتے وقت چیئرمین منتخب نہیں ہوتا تو کاغذات نامزدگی درست نہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ امیدوار نے جو دکھایا اس کی بنیاد پر کاغذات نامزدگی منظور ہوئے۔ جسٹس نعیم افغان نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے کاغذات نامزدگی میں پارٹی حیثیت دیکھی یا آپ نے خود کو آزاد قرار دیا؟ اس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ میں نے خود کو آزاد امیدوار ظاہر نہیں کیا، میں نے کاغذات نامزدگی دیکھے، حامد رضا کی درخواست دیکھی جس میں انہیں آزاد امیدوار کا اعلان کرنے کا کہا گیا تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کا معاملہ کئی سالوں سے آرہا تھا، تحریک انصاف انٹرا پارٹی الیکشن کے لیے بار بار وقت مانگ رہی ہے، بطور وزیراعظم ایک سال دینے کی درخواست کی۔ انٹرا پارٹی الیکشن کے لیے یہ الگ بات ہے کہ پی ٹی آئی ایک سال کے باوجود انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کروا سکی، سپریم کورٹ پر نہ ڈالیں، الیکشن کمیشن یہ پہلے دیکھ سکتا تھا۔
30