اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) ریاستہائے متحدہ میں نیواڈا یونیورسٹی کی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ ہمارا دماغ انسان کی بنائی ہوئی گھڑیوں کے مطابق وقت کا خیال رکھتا ہے، یعنی یہ منٹ بہ منٹ وقت کا تعین کرتا ہے۔لیکن تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ہمارے دماغ اس طرح کام نہیں کرتے۔دماغی سرگرمیوں کا تجزیہ کرنے سے معلوم ہوا کہ ہم اپنے ساتھ اپنے تجربات کی بنیاد پر وقت کا تعین کرتے ہیں۔تحقیق کے مطابق مختلف سرگرمیوں کے دوران ہمارا دماغ ہمیں یہ محسوس کرتا ہے کہ وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔
محققین نے کہا کہ ہم وقت کی وضاحت ان واقعات یا تجربات کی بنیاد پر کرتے ہیں جو ہمارے ساتھ پیش آتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ جب ہم بور ہوتے ہیں یا کچھ نہیں کرتے ہیں تو وقت بہت آہستہ آہستہ گزرتا ہے کیونکہ ہمارے ارد گرد کچھ نہیں ہو رہا ہوتا، اس کے برعکس جب ہم بہت مصروف ہوتے ہیں یا ہمارے ارد گرد بہت کچھ ہوتا ہے. جب ایسا ہوتا ہے تو ذہنی سرگرمیاں بھی تیز ہوتی جاتی ہیں اور ہمیں لگتا ہے کہ وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے۔اس تحقیق میں چوہوں پر تجربات کیے گئے اور انہیں سونگھنے کے لیے مختلف چیزیں دی گئیں.سائنس دان پہلے ہی جانتے ہیں کہ دماغی سرگرمیاں تقریباً ایک جیسی ہوتی ہیں، لیکن جب ایک چیز دہرائی جاتی ہے تو وہ سرگرمیاں قدرے مختلف ہو جاتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
بیوی کا انتخاب کرتے وقت سب سے زیادہ کس چیز کو دیکھا جاتا ہے؟دلچسپ حقائق
تحقیق نے دریافت احساس کیا ہے کہ ہمارے تجربات وقت گزرنے کے بارے میں ہمارے تصور میں اہم کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ دماغی سرگرمی کا نمونہ نمایاں طور پر تبدیل ہوتا ہے۔محققین نے بھی انسانوں پر اسی طرح کے تجربات کئے۔ان تجربات کے دوران فیکٹری ورکرز کے 2 گروپ بنائے گئے۔ایک گروپ کو 30 منٹ میں اور دوسرے کو 90 منٹ میں اپنا کام مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی۔نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ کام کا دورانیہ دماغی سرگرمی کے انداز کو متاثر نہیں کرتا، کیونکہ ہمارے دماغ گھڑیاں نہیں ہیں، لیکن وہ وقت کی مختلف پیمائش کرتے ہیں۔محققین نے دریافت کیا کہ جب ہمارا دماغ کسی ایسے کام کی طرف بڑھتا ہے جس کے لیے بہت زیادہ حرکت کی ضرورت ہوتی ہے تو دماغی خلیے مل کر کام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
مزید پڑھیں
دن کےٹائم کو AMاور رات کےٹائم کو PM کیوں کہتے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ جب ایسا ہوتا ہے تو یعنی خلیے مل کر کام کرنا شروع کر دیتے ہیں، وقت گزرنے کا احساس بھی کام کی تکمیل سے منسلک ہوتا ہے۔تحقیق میں یہ بھی پتہ چلا کہ جسمانی سرگرمیوں کے علاوہ وقت کے تیزی سے گزرنے کا احساس دیگر سرگرمیوں سے بھی وابستہ ہے۔محققین کے مطابق، وقت تیزی سے گزر رہا ہے یہاں تک کہ اگر ہم کھانے کے دوران کسی کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم جتنے مصروف ہیں، وقت اتنا ہی تیز گزرتا ہے اور یہ سچ ہے کہ جب آپ کسی تفریحی سرگرمی کا حصہ ہوتے ہیں تو وقت واقعی اڑتا ہے۔محققین کے مطابق نتائج کی تصدیق کے لیے اس سلسلے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے جبکہ یہ بھی جاننا کہ وقت کا ادراک ہماری یادداشت اور روزمرہ کی زندگی کو کیسے متاثر کرتا ہے۔