اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز)امریکی صدر کی جانب سے غزہ میں جاری جنگ کو ختم کرنے کے لیے پیش کردہ جنگ بندی منصوبے پر فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے باضابطہ ردعمل دیتے ہوئے تین بنیادی مطالبات مذاکرات کے ثالثوں قطر اور مصر کے سامنے رکھ دیے ہیں۔
یہ ردعمل ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بین الاقوامی برادری، خاص طور پر امریکہ، اقوام متحدہ، یورپی یونین اور عرب ممالک، غزہ میں اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے انسانی بحران پر شدید تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
حماس کے مطالبات
1 مکمل اور مستقل جنگ بندی
حماس نے مطالبہ کیا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی صرف عارضی نہیں بلکہ مستقل ہو۔ وہ اس بات کی ضمانت چاہتے ہیں کہ اسرائیل دوبارہ عسکری کارروائی شروع نہ کرے۔
2. قیدیوں کا تبادلہ
حماس نے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کو رہا کیا جائے، خاص طور پر وہ افراد جو بغیر کسی مقدمے کے زیر حراست ہیں۔ اس کے بدلے میں وہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی پر غور کرنے کو تیار ہیں۔
3 غزہ پر محاصرہ ختم کیا جائے
حماس نے زور دیا ہے کہ غزہ پر اسرائیل اور مصر کی جانب سے عائد معاشی، تجارتی، اور سفری پابندیاں مکمل طور پر ختم کی جائیں تاکہ انسانی امداد، تعمیر نو، اور روزمرہ زندگی کے معمولات بحال ہو سکیں۔
قطر اور مصر، جو ماضی میں بھی اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرتے رہے ہیں، اس وقت بھی ان دونوں فریقوں کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں۔ دونوں ممالک نے امریکی منصوبے کے مسودے کو حماس کے سامنے پیش کیا تھا، جس پر اب حماس کی قیادت نے اپنا ردعمل دے دیا ہے۔مصر اور قطر کے نمائندے اگلے چند دنوں میں اسرائیلی حکام سے بھی ملاقاتیں کریں گے تاکہ حماس کے مطالبات پر ان کا مؤقف معلوم کیا جا سکے۔
امریکہ نے حماس کے ردعمل کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے ایک "مثبت پیش رفت” قرار دیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ "امن کی طرف پہلا قدم یہی ہے کہ فریقین مذاکرات کے لیے تیار ہوں۔”دوسری جانب اسرائیل نے حماس کے کچھ مطالبات کو "ناقابل قبول” قرار دیا ہے، تاہم باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ بیک ڈور ڈپلومیسی جاری ہے اور مکمل انکار نہیں کیا گیا۔تجزیہ نگاروں کے مطابق حماس کا مطالبہ کہ جنگ بندی مستقل ہو، اسرائیل کے لیے سب سے مشکل شرط ہے کیونکہ وہ حماس کو عسکری قوت کے طور پر کمزور کرنے کی حکمت عملی پر کاربند رہا ہے۔ تاہم بین الاقوامی دباؤ اور انسانی بحران کی شدت کے پیش نظر اسرائیل پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ جنگ بندی پر آمادہ ہو۔غزہ میں جنگ بندی کی راہ میں رکاوٹیں اب بھی موجود ہیں، لیکن حماس کی جانب سے واضح اور متعین مطالبات پیش کیے جانے سے ایک نیا سفارتی راستہ کھل سکتا ہے۔ آئندہ چند دنوں میں ثالثی کی کوششیں فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو سکتی ہیں۔