اردوورلڈ کینیڈا( ویب نیوز)نائب وزیرِ اعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے اسلام آباد میں انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹجک اسٹڈیز کی 52ویں سالگرہ کی تقریب سے خطاب میں کہا ہے کہ بھارت پاکستان پر اپنی مرضی مسلط نہیں کر سکتا اور اپنی خارجہ پالیسی پر نظرِثانی کرے۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے احترام پر قائم ہے اور بھارتی اقدامات، خاص طور پر پہلگام واقعے کے بعد کے "فالس فلیگ” حملوں کے ردِعمل کے طور پر پاکستان نے بروقت اور مضبوط جواب دیا۔
اس نے مزید کہا کہ بھارت ایک مقبوضہ ملک کی طرح سندھ طاس معاہدہ معطل نہیں کر سکتا اور پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی کوشش عالمی قوانین کی خلاف ورزی شمار ہوگی۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ پاکستان کبھی بھی بھارت کو 24 کروڑ عوام کو یرغمال بنانے کی اجازت نہیں دے گا اور برادرانہ تعلقات پر قائم امن کی پالیسیاں جاری رکھے گا۔
وزیرِ خارجہ نے مسئلہ کشمیر پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ مسئلہ ہے، اور اس کا حل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کے بغیر خطے میں حقیقی اور طویل المدت امن ممکن نہیں۔ ڈار نے ایران اسرائیل کشیدگی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتا ہے اور ایران کے دفاعی حقوق کا پرُزور ساتھ دیتا ہے۔ انھوں نے ایران کے جوہری پروگرام کے لیے مذاکراتی حل کی وکالت کی، اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی کا خیر مقدم کرے۔
نائب وزیراعظم نے آئی ایس ایس آئی (انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹجک اسٹڈیز اسلام آباد) کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ ادارہ تعلیمی، پالیسی سازی اور سفارتی امور میں اہم کردار ادا کر رہا ہے، اور پاکستان کو عالمی سطح پر ایک ذمہ دار رکن کے طور پر مضبوط کر رہا ہے۔ انھوں نے مسئلہ فلسطین پر بھی موقف اپنایا اور دو ریاستی حل کے حامی بنے، اسرائیل کی غزہ میں کارروائیوں کو "نسل کشی” قرار دیا، اور عالمی برادری پر زور دیا کہ ان مظالم کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کرے۔ انہوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں انصاف کے بغیر امن قائم نہیں رہ سکتا۔
آفغانستان کے حوالے سے، ڈار نے افغان حکومت سے اپیل کی کہ وہ اپنی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے استعمال نہ ہونے دے، اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مزید پایہِ تکمیل تک پہنچانے پر زور دیا۔ آخر میں انھوں نے پاک–چین اسٹریٹجک شراکت داری کی مضبوطی پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ حکومت کی اولین ترجیحات میں تجارت اور بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دینا شامل ہے، جس سے ملک کی معیشت کو نئی طاقت ملے گی۔