اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے پہلی بار واضح طور پر اس بات کا اظہار کیا ہے کہ اگر اسرائیل فلسطینی علاقوں پر قبضہ ختم کر دے تو وہ اپنے ہتھیار فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہے۔
ترک میڈیا کے مطابق حماس کے سینئر رہنما خلیل الحیہ نے کہا کہ ہمارے ہتھیار صرف قبضے اور جارحیت کے خلاف مزاحمت سے وابستہ ہیں، اور جب تک اسرائیلی قبضہ برقرار ہے، مزاحمت ناگزیر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر عالمی سطح پر کوئی قابلِ اعتماد فریم ورک سامنے آتا ہے جس کے تحت اسرائیل پسپائی اختیار کرے، تو حماس نہ صرف ہتھیار رکھ سکتی ہے بلکہ فلسطینی اتھارٹی کے تحت سیاسی عمل میں بھی شامل ہو سکتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم اقوامِ متحدہ کی فورس کو سرحدوں پر بطور نگران تعینات کرنے کے لیے تیار ہیں تاکہ جنگ بندی پر عمل درآمد یقینی بنایا جا سکے۔
دوسری جانب اسرائیل کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ تازہ کارروائیوں میں مزید 7 فلسطینی شہید کر دیے گئے، جبکہ 11 اکتوبر 2025 سے اب تک جنگ بندی کے باوجود 367 فلسطینی اسرائیلی کارروائیوں میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق اسرائیل کی فوج کی کارروائیاں غیر متناسب طاقت کے استعمال اور شہری آبادی کو نشانہ بنانے کے زمرے میں آتی ہیں۔ دو روز قبل اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی کہا تھا کہ غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کے جنگی جرائم ہونے کے شواہد موجود ہیں، جس سے عالمی سطح پر اسرائیل کے خلاف دباؤ بڑھ رہا ہے۔
فلسطین کی مجموعی صورتحال مسلسل بگڑ رہی ہے، اور اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی حملوں میں 70 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد 1 لاکھ 20 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ تباہ شدہ گھروں، ہسپتالوں، پناہ گاہوں اور بنیادی ڈھانچے کی بربادی نے خطے کو انسانی المیے کی نچلی ترین سطح تک پہنچا دیا ہے۔ حماس کی جانب سے ہتھیار رکھ دینے کی مشروط آمادگی کو کئی مبصرین ایک اہم سیاسی موڑ قرار دے رہے ہیں، تاہم اس فیصلے کے لیے اسرائیل کے طرزِ عمل میں بڑی تبدیلی ناگزیر ہے۔ بین الاقوامی برادری کے لیے بھی یہ ایک آزمائش ہے کہ آیا وہ محض بیانات تک محدود رہے گی یا عملی طور پر اس تنازع کے پائیدار حل کے لیے کوئی مضبوط کردار ادا کرے گی۔
—
–