اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) برطانوی وزیرِاعظم سر کیئر اسٹارمر کی جانب سے مسلم کمیونٹی اور مساجد کے تحفظ کے لیے 10 ملین پاؤنڈ کی اضافی فنڈنگ کا اعلان محض ایک مالی اقدام نہیں بلکہ برطانیہ کی اخلاقی اور سماجی ذمہ داری کا اظہار ہے۔
ایسے وقت میں جب مغربی دنیا میں اسلاموفوبیا اور نفرت انگیزی کے واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، برطانیہ کی حکومت کا یہ فیصلہ برداشت، مساوات اور سماجی انصاف** کی اعلیٰ مثال ہے۔مشرقی سسیکس میں مسجد پر ہونے والا حالیہ حملہ، جس میں ایک گاڑی کو آگ لگا دی گئی، اس حقیقت کی تلخ یاد دہانی ہے کہ نفرت کے بیج کبھی بھی اور کہیں بھی بوئے جا سکتے ہیں۔ لیکن اس کے جواب میں ریاست کا کردار یہ طے کرتا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے درمیان خوف یا اعتماد میں سے کس کو فروغ دیتی ہے۔
سر کیئر اسٹارمر نے اپنے بیان میں بالکل درست کہا کہ "کسی کمیونٹی پر حملہ دراصل پوری قوم پر حملہ ہے۔” یہ جملہ محض سیاسی اظہار نہیں، بلکہ ایک قومی عزم ہے — ایک ایسا عزم جو برطانوی معاشرے کی بنیادوں میں موجود رواداری، انصاف اور برابری کی قدروں کو دوبارہ اجاگر کرتا ہے۔اسی طرح وزیر داخلہ شبانہ محمود کا یہ کہنا کہ "مسجد پر حملہ ایک خوفناک جرم تھا جس کے تباہ کن نتائج ہو سکتے تھے” اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ حکومت اب محض مذمت تک محدود نہیں رہنا چاہتی بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے مسلمانوں کی سیکیورٹی کو یقینی بنانا چاہتی ہے۔
10 ملین پاؤنڈ کی یہ فنڈنگ دراصل اعتماد کی سرمایہ کاری* ہے۔ یہ رقم صرف کیمرے، سیکیورٹی گارڈز یا دروازوں کے تالے لگانے کے لیے نہیں، بلکہ ایک ایسے پیغام کے لیے ہے جو برطانیہ کے ہر مسلمان کو یہ باور کراتا ہے کہ "یہ ملک تمہارا بھی اتنا ہی ہے جتنا کسی اور کا”۔**
اس فیصلے سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ برطانیہ دیگر مغربی ممالک کے لیے بھی ایک **مثبت مثال** بنے گا، جہاں اسلاموفوبیا کے بڑھتے رجحانات کے مقابلے میں امن، احترام اور باہمی اعتماد کے اصولوں کو اولیت دی جائے گی۔آج جب دنیا کے کئی حصوں میں مذہبی تعصب بڑھ رہا ہے، برطانیہ کی حکومت نے ثابت کیا ہے کہ ایک **جمہوری اور مہذب معاشرہ** اپنی اقلیتوں کے ساتھ کھڑا ہو کر ہی مضبوط بنتا ہے۔