اردو ورلڈ کینیڈا (ویب نیوز )پنجاب کے دارالحکومت لاہور سمیت مختلف شہروں میں چائلڈ پورنوگرافی میں ملوث 20 سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔
پنجاب کے مختلف شہروں میں ہم جنس پرستی، چائلڈ پورنوگرافی اور لائیو ویڈیو سٹریمنگ کے ذریعے لاکھوں روپے کمائے جانے اور بلیک میل کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔
ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے پنجاب میں چائلڈ پورنوگرافی اور ہم جنس پرستی میں ملوث افراد کے خلاف گرینڈ آپریشن کے دوران لاہور، فیصل آباد، ملتان، گوجران اللہ، شیخوپورہ، راولپنڈی سے 20 سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا۔
گرفتار افراد کے قبضے سے بچوں، خواتین اور ادھیڑ عمر افراد کی فحش ویڈیوز اور تصاویر، جنسی منشیات اور دیگر سامان برآمد ہوا ہے۔
ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے مطابق سوشل میڈیا ایپ پر ہم جنس پرستوں کی بڑی تعداد موجود ہے جن کا زیادہ تر تعلق پنجاب کے مختلف شہروں سے ہے۔ یہ ایپس چائلڈ پورنوگرافی سمیت ہم جنس پرستی کو فروغ دے رہی ہیں۔ ملزمان ہم جنس پرستی کی سوشل میڈیا ایپ پر براہ راست نشریات بھی کرتے تھے
ہم جنس پرستوں کے ایک گروہ کے ارکان کو گرفتار کیا گیا ہے۔ گرفتار ملزمان میں نوید عاصم، انور قیصر، اسد منیر، عمران تنویر افتخار، وحید توقیر، ندیم شرافٹ قاسم اور دیگر ملزمان شامل ہیں۔
پورنو گرافی کسے کہتے ہیں اسکی سزاء کتنی ہے ؟
اینٹی الیکٹرانک کرائمز ایکٹ، 2015 کے چائلڈ پورنوگرافی کی شق کے مطابق اگر کوئی شخص کسی بچے کی نازیبا تصویر یا ویڈیو بناتا ہے تو اسے پورنو گرافی کہتے ہیںاس تصویر کو بنانے، بیچنے یا منتقل کرنے والا مجرم ہے اور وہ ایسا کرکے ایک جرم کا کا ارتکاب کرے گا جس کی سزا زیادہ سے زیادہ سات سال قید یا پانچ لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں ہوسکتی ہیں۔ متاثرہ بچے کے والدین یا سرپرست حکام سے متعلقہ مواد کو انٹرنیٹ سے ہٹانے کی درخواست بھی کر سکتے ہیں۔
اسی طرح اگر کوئی شخص کسی بالغ کی عریاں تصاویر یا ویڈیوز بناتا، شیئر کرتا یا فروخت کرتا ہے تو وہ بھی ایسے جرم کا مجرم ہے جس کی سزا تین سال قید یا 10 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں
سائبر کرائم ایکٹ کے مطابق اگر کوئی شخص سوشل میڈیا یا انٹرنیٹ پر کسی کو ہراساں کرتا ہے، ناشائستہ تبصرے کرتا ہے، یا کوئی ایسا کام کرتا ہے جو ذہنی پریشانی کا باعث بنتا ہے تو یہ بھی ایک جرم ہے جس کی سزا تین سال قید اور 5000 روپے جرمانہ ہے۔
تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ پب جی گیم کھیلنے کے دوران بچوں سے دوستی کی جاتی ہے، پھر ان بچوں کو گیم میں شامل ہونے کا لالچ دے کر اور اپنی مرضی سے پب جی گیم کھولنے کے لیے ان کے نازیبا ویڈیو کلپس بنائے جاتے ہیں۔
لاہور، گجرات اور ملتان کے مختلف پرائیویٹ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلباء کو پرائیویٹ پارٹیوں، گروپ اسٹڈیز اور ماڈلنگ کے ذریعے ہم جنس پرستوں کے گروپوں میں بھرتی کیا جاتا ہے، اور انہیں جنسی تعلقات اور ہم جنس پرستی سے متعلق فلمیں دیکھ کر بھی آمادہ کیا جاتا ہے۔
ایف آئی اے ذرائع کے مطابق کئی غریب خاندان ان مافیاز کی جانب سے بدنامی اور دھمکیوں کے باعث تحقیقات میں ایف آئی اے سے تعاون نہیں کر رہے۔ کچھ افراد ایسے بھی تھے جنہوں نے درخواستیں دیں لیکن ان سے تفتیش نہیں ہوئی تاہم ایف آئی اے نے ان کے خلاف قانونی کارروائی شروع کر دی ہے