رپورٹ کے مطابق اس فیصلے کا مقصد سمگلنگ کو روکنا اور باقاعدہ ٹیکس عائد کرنا ہے یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حکومت نے پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم تمام غیر ملکیوں پر پابندی عائد کر دی ہے جن میں 1.73 ملین افغان شہری بھی شامل ہیں انہیں ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے اور ملک بدری کی وارننگ دی گئی ہے۔
افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کے تحت محکمہ کسٹمز کے نوٹیفکیشن (ایس آر او 1381 آف 2023) کے مطابق پاکستان کے راستے افغانستان میں داخل ہونے والے سامان کی اصل قیمت کا 10 فیصد فیس پیشگی ادا کرنا ہوگا
ان اشیا میں کنفیکشنری، چاکلیٹ، جوتے، مختلف مشینری، کمبل، ہوم ٹیکسٹائل اور گارمنٹس شامل ہیں، تاہم نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ نوٹیفکیشن کا اطلاق 3 اکتوبر سے پہلے یعنی نوٹیفکیشن کے اجراء سے پہلے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت اعلان کردہ اشیا پر نہیں ہوتا
تازہ ترین اقدام اس وقت سامنے آیا ہے جب کسٹم حکام کو شبہ ہے کہ بظاہر افغانستان بھیجا گیا کچھ سامان خفیہ طور پر واپس پاکستان بھیجا گیا ہے۔
ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کے تحت پاکستان کو کارگو پر پروسیسنگ فیس عائد کرنے کا حق حاصل ہے۔
جب سے طالبان نے 15 اگست 2021 کو افغانستان کا اقتدار سنبھالا ہے، پاکستان نے پھلوں اور سبزیوں سمیت مختلف اشیا پر ٹیکس اور ڈیوٹی کی چھوٹ فراہم کی ہے۔ اس کے علاوہ، گزشتہ سال 6 جولائی سے، حکومت نے زمینی راستوں کے ذریعے تمام مصنوعات کی افغانستان تک روپے میں تجارت کی اجازت بھی دی۔
اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے کسٹمز نے قانونی ڈھانچہ کو مضبوط بنانے کے لیے کسٹمز ایکٹ 1969 کے تحت متعدد پالیسیاں اپنائی ہیں جن میں گندم، آٹا، چینی اور یوریا جیسی ضروری اشیاء ضروری اشیاء کی فہرست میں شامل کی گئی ہیں۔
اس کے علاوہ کسٹم ایکٹ کا دائرہ کار افغانستان، بھارت اور ایران کی سرحدوں کے قریب 5 کلومیٹر سے بڑھا کر 10 کلومیٹر اور بلوچستان کے بعض اضلاع کے قریب 50 کلومیٹر تک بڑھا دیا گیا ہے۔
حکومت نے اسمگلنگ کے مسائل سے نمٹنے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ رابطے کے لیے ایک چیف کلکٹر آف کسٹمز (بلوچستان) کو بھی مقرر کیا ہے۔