پنجاب میں سیلاب، ماں کی گود میں بہتا بچہ ،چار دن سے پھنسے خاندان کی دردناک کہانی 

 اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز )   پنجاب کے مختلف دریاؤں میں تباہ کن سیلابی صورتحال برقرار ہے۔ سیلابی ریلوں نے ہزاروں بستیاں اجاڑ دیں، لاکھوں افراد بے گھر ہو گئے، جبکہ مختلف حادثات میں جاں بحق افراد کی تعداد بڑھ کر 33 ہو گئی ہے

 وزیرآباد کے نواحی علاقے میں ایک عام سا دن تھا۔ بچے کھیل رہے تھے، عورتیں گھروں میں معمول کے کاموں میں مصروف تھیں اور مرد کھیتوں میں کام کر رہے تھے۔ لیکن اچانک آسمان پر کالے بادل چھا گئے۔ بارش شروع ہوئی اور چند ہی گھنٹوں میں بارش نے تباہی کا روپ دھار لیا۔ قریبی ندی نالے ابل پڑے اور دیکھتے ہی دیکھتے پانی نے گاؤں کی گلیوں کو نگل لیا۔
اسی گاؤں میں  رشیدہ بی بی  اپنے دو بیٹوں، بہوؤں اور پانچ پوتے پوتیوں کے ساتھ ایک کچے مکان میں رہتی تھیں۔ بارش کے ساتھ آنے والا تیز ریلہ لمحوں میں ان کے گھر کے دروازے تک پہنچ گیا۔ شروع میں سب نے سوچا کہ پانی اتر جائے گا، لیکن پانی کم ہونے کے بجائے بڑھنے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کا پورا گاؤں ایک جھیل میں تبدیل ہوگیا۔
 پہلے دن رشیدہ بی بی نے اپنے بیٹوں سے کہا“بیٹا فکر نہ کرو، شاید شام تک پانی کم ہو جائے گا۔ اللہ بڑا کارساز ہے۔“لیکن شام ڈھلنے تک پانی کمر تک پہنچ چکا تھا۔ سب افراد مکان کی چھت پر چڑھ گئے۔ بارش نہیں رک رہی تھی۔ بچوں نے بھوک سے رونا شروع کیا۔ گھر میں بس تھوڑا سا خشک آٹا اور چند باسی روٹیاں تھیں۔ عورتوں نے وہ پانی سے بچا کر بچوں کو کھلایا۔ سب یہی سوچتے رہے کہ صبح تک ریسکیو کی ٹیم آ جائے گی۔
 دوسرے دن سورج نکلا مگر پانی مزید بڑھ گیا۔ کھانے کو اب کچھ نہیں بچا تھا۔ ایک پوتا بار بار کہتا رہا“دادی مجھے روٹی چاہیے، بہت بھوک لگی ہے۔“رشیدہ بی بی کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، لیکن انہوں نے بچے کو بہلانے کے لیے کہا“بیٹا! ذرا صبر کرو، تمہارا ابا ابھی کشتی لے کر آئے گا۔“گاؤں کے باقی لوگ بھی اپنی چھتوں پر پھنسے ہوئے تھے۔ دور دور تک بس پانی ہی پانی نظر آتا تھا۔ کوئی پرسان حال نہیں تھا۔
تیسرا دن: بیماری اور موت کا خوف 
تیسرے دن تک سب کے جسم کمزور پڑنے لگے۔ پینے کا صاف پانی ختم ہوگیا۔ بچوں کو پیاس لگنے لگی تو انہوں نے بارش کا پانی پینے کی کوشش کی۔ اس کے بعد دو بچوں کو قے اور بخار شروع ہوگیا۔
رشیدہ بی بی نے کپڑے کا ٹکڑا گیلا کر کے بچوں کے ہونٹ تر کرنے کی کوشش کی۔اسی دوران رات کو ایک لمحہ ایسا بھی آیا جب مکان کا ایک کمرہ اچانک گر گیا۔ سب چیخ اٹھے۔ عورتیں رونے لگیں کہ اگر چھت گر گئی تو سب پانی میں بہہ جائیں گے۔ یہ رات سب نے جاگ کر گزاری، کوئی سو نہ سکا۔
چوتھے دن بچوں کی حالت نازک ہو چکی تھی۔ بڑی بہو نے روتے ہوئے کہا“امی! اگر ریسکیو والے نہ آئے تو ہم سب یہیں مر جائیں گے۔“لیکن دوپہر کے قریب اچانک دور سے انجن کی آواز سنائی دی۔ پانی پر ایک کشتی دکھائی دی جس میں ریسکیو اہلکار تھے۔ چھت پر کھڑے سب افراد نے ہاتھ ہلانا اور چیخنا شروع کر دیا۔ بچوں نے بھی خوشی سے شور مچایا۔اہلکار جب قریب پہنچے تو رشیدہ بی بی نے سجدے میں گر کر اللہ کا شکر ادا کیا۔ سب کو باری باری کشتی پر بٹھایا گیا۔ چھوٹے بچوں کو پہلے اٹھایا گیا۔ چار دن کی اذیت کے بعد وہ لمحہ آیا جب یہ خاندان موت کے منہ سے زندہ سلامت نکل آیا۔رشیدہ بی بی نے ریسکیو اہلکاروں کو دعائیں دیتے ہوئے کہا“تم ہمارے لیے فرشتے ہو، اللہ تمہیں سلامت رکھے۔“
یہ صرف ایک خاندان کی کہانی نہیں بلکہ پنجاب کے ان لاکھوں متاثرین کی جھلک ہے جو سیلاب کے بعد بے بسی، بھوک، پیاس اور خوف میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ہر خاندان کی اپنی الگ دردناک داستان ہے۔ کہیں بچے والدین سے جدا ہو گئے، کہیں کسان اپنی زندگی بھر کی کمائی کھو بیٹھے اور کہیں لوگ اپنے پیاروں کی لاشیں پانی میں ڈھونڈتے رہے۔
ماں کی گود میں بہتا بچہ 
جھنگ کے قریب ایک اور دل دہلا دینے والا واقعہ سامنے آیا۔ پانی کا تیز ریلہ آیا تو ایک ماں اپنے نومولود کو سینے سے چمٹا کر نکلی۔ اہلِ دیہہ کے مطابق وہ عورت روتے ہوئے دہائی دیتی رہی کہ "میرے بچے کو بچا لو”۔ اہلکاروں نے اسے کھینچ کر محفوظ کیا لیکن بدقسمتی سے بچہ پانی کی لپیٹ میں آ کر جان سے گیا۔ یہ منظر دیکھنے والے خود بھی آنسو نہ روک سکے۔
کسان کی فریاد: 
جھنگ اور چنیوٹ میں کھڑی فصلیں پانی میں ڈوب گئیں۔ ایک کسان غلام شبیر نے روتے ہوئے بتایا:“پچھلے سال بھی نقصان ہوا تھا، اس بار سوچا تھا قرض اتار دوں گا، لیکن اب سب کچھ پانی لے گیا۔۔۔ زمین ہے مگر فصل نہیں۔“
 زندگی اور موت کے بیچ لوگ
ملتان اور مظفرگڑھ کے کئی گاؤں میں اب بھی لوگ پھنسے ہوئے ہیں۔ کئی دیہات سے اطلاعات آ رہی ہیں کہ لوگ درختوں پر چڑھ کر یا چھتوں پر بیٹھ کر ریسکیو کا انتظار کر رہے ہیں۔ کچھ کے پاس جانور ہیں جنہیں چھوڑنے کو تیار نہیں، کیونکہ وہی ان کا کل اثاثہ ہیں۔
ریلیف کیمپ میں بھوک اور بے بسی 
فیصل آباد کے کیمپ میں موجود متاثرہ افراد نے بتایا کہ کھانے کے لیے صرف خشک راشن مل رہا ہے، کئی خاندانوں کے پاس صاف پانی نہیں۔ ایک خاتون نے کہا:
“بچوں کو بس ایک ایک بسکٹ دے کر چپ کراتے ہیں۔ رات کو جب بارش ہوتی ہے تو خیمے ٹپکتے ہیں
 چار بہن بھائی پانی میں بہہ گئے 
فیصل آباد کے قریب ایک دل دہلا دینے والے حادثے میں ایک ہی گھر کے چار بچے پانی میں بہہ گئے۔ والدہ بیہوش ہو گئی اور والد کی چیخیں سن کر دیہاتی بھی رونے لگے۔ اہلِ علاقہ کے مطابق یہ منظر زندگی بھر نہیں بھولے جا سکتے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو  800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنا مختصر  تعارف کے ساتھ URDUWORLDCANADA@GMAIL.COM پر ای میل کردیجیے۔

امیگریشن سے متعلق سوالات کے لیے ہم سے رابطہ کریں۔

کینیڈا کا امیگریشن ویزا، ورک پرمٹ، وزیٹر ویزا، بزنس، امیگریشن، سٹوڈنٹ ویزا، صوبائی نامزدگی  .پروگرام،  زوجیت ویزا  وغیرہ

نوٹ:
ہم امیگریشن کنسلٹنٹ نہیں ہیں اور نہ ہی ایجنٹ، ہم آپ کو RCIC امیگریشن کنسلٹنٹس اور امیگریشن وکلاء کی طرف سے فراہم کردہ معلومات فراہم کریں گے۔

ہمیں Urduworldcanada@gmail.com پر میل بھیجیں۔