‘اکشر (خط) کے نام سے یہ اسکول 32 سالہ مزین مختار اور ان کی اہلیہ پرمیتا شرما نے پاموہی نامی گاؤں میں قائم کیا ہے۔
جوڑے نے یہ اسکول پسماندہ علاقے کے بچوں میں علم کی روشنی پھیلانے کے لیے قائم کیا تھا لیکن بعد میں ان کا مقصد مقامی آبادی میں ماحولیاتی آلودگی کے بارے میں شعور بیدار کرنا اور اس حوالے سے اقدامات کرنا تھا۔
یہ بھی پڑھیں
ٹاس جیتنے کیلئے سکے کے کس رخ کا انتخاب کرنا چاہیے؟ نئی تحقیق
دراصل گاؤں کے لوگ اپنے گھروں میں کھانا پکانے کے لیے بڑی مقدار میں پلاسٹک کی بوتلیں اور تھیلے جلاتے تھے اور ان سے اٹھنے والے دھوئیں کی وجہ سے ایک طرف فضا آلودہ ہو رہی تھی تو دوسری طرف اس دھوئیں کی وجہ سے کلاس رومز میں بچے کھانسی اور سینے کے انفیکشن میں مبتلا تھے۔گاؤں کی زیادہ تر آبادی قریبی پتھر کی کانوں میں محنت مزدوری کرتی ہے۔ گاؤں کے بچے بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ کام پر جاتے تھے اس لیے بہت کم والدین اپنے بچوں کو پڑھنے کے لیے اسکول بھیج رہے تھے۔
مزید پڑھیں
پوتے پیسوں میں ہیر پھیر کرتے ہیں ،92سالہ دادی ریاضی سیکھنے سکول پہنچ گئی
مزین مختار نے ایک برطانوی اخبار کے نمائندے کو بتایا کہ جب ہم نے والدین سے کہا کہ وہ اپنے گھر میں استعمال ہونے والی پلاسٹک کی بوتلیں بچوں کو بھیجنا شروع کر دیں تو شروع میں کسی نے ہماری بات نہیں سنی۔ بیوی نے انہیں بتایا کہ ہم فیس لینا شروع کر رہے ہیں اور ان کے پاس اسے ادا کرنے کے لیے دو آپشن ہیں، یا تو وہ نقد رقم ادا کریں یا پلاسٹک کے کچرے کی صورت میں۔
اس کے بعد تمام والدین نے بچوں کے ساتھ پلاسٹک کی بوتلیں اور تھیلے وغیرہ بھیجنا شروع کیے، اس کے علاوہ والدین سے یہ تحریری وعدہ بھی لیا گیا کہ وہ پلاسٹک کی اشیاء نہیں جلائیں گے۔بچوں میں فضائی آلودگی کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے علاوہ انہیں سکول میں پیشہ ورانہ تربیت بھی دی جاتی ہے جس کے دوران انہیں کارپینٹری کا کام اور سولر پینل کی تنصیب کے ساتھ بجلی کے آلات کی مرمت بھی سکھائی جاتی ہے۔
پوتے پیسوں میں ہیر پھیر کرتے ہیں ،92سالہ دادی ریاضی سیکھنے سکول پہنچ گئی
اسکول کے آغاز میں بچوں کی تعداد 20 تھی جو بتدریج بڑھ کر 110 ہوگئی ہے۔ بچوں کی عمریں چار سے 15 سال کے درمیان ہیں اور انہیں سات اساتذہ پڑھاتے ہیں۔ہم ہر طالب علم کو اپنے ماحول کی ذمہ داری لینا سکھاتے ہیں، پرمیتا شرما کہتی ہیں، ہر طالب علم سے ہر ہفتے 25 پلاسٹک کی اشیاء بطور فیس لی جاتی ہیں۔اس طرح ہم ماہانہ تقریباً 10 ہزار پلاسٹک کی اشیاء جمع کرتے ہیں جن سے ماحول دوست اینٹیں بنائی جاتی ہیں جنہیں بعد میں تعمیرات میں استعمال کیا جاتا ہے