امکان ہے کہ نئی حکومت معیشت کو چلانے کے وہی پرانے طریقے آزمائے گی اور توانائی کی قیمتوں میں اضافہ کرکے اپنے معاملات چلانے کی کوشش کرے گی جس کے نتیجے میں مہنگائی بڑھے گی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی روپیہ مختصر مدت میں ڈالر اور دیگر غیر ملکی کرنسیوں کے مقابلے میں مستحکم رہے گا تاہم غیر یقینی سیاسی صورتحال کے باعث اسٹاک مارکیٹ اور پاکستانی یورو بانڈز دباؤ میں آ سکتے ہیں۔ تجزیہ کار عدنان اگر نے کہا کہ جو بھی حکومت بنائے گا اسے معاشی استحکام اور ملکی ترقی کے لیے نیا پروگرام حاصل کرنے کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے جان چھڑانے کے لیے پاکستان کو ٹیکسوں میں اصلاحات کرنا ہوں گی، اور زراعت اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر ٹیکس لگانا ہوں گے، لیکن اشرافیہ اپنے آپ پر ٹیکس کیسے لگنے دیں گے۔حکومت لائن لاسز اور بجلی چوری روکنے کے بجائے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کو ترجیح دے گی، امیروں پر ٹیکس لگانے کی بجائے پہلے سے اوور ٹیکس والے کاروبار پر ٹیکس بڑھانے کو ترجیح دے گی۔چیس سیکیورٹیز کے ڈائریکٹر ریسرچ یوسف فاروق نے کہا کہ پاکستان ایک اور سیاسی عدم استحکام کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ سیاسی استحکام نہ آیا تو اسٹاک مارکیٹ اور یورو بانڈز کی قدر گرے گی۔ معاشی استحکام اور آئی ایم ایف کے ساتھ تعلقات نئی حکومت کے لیے سب سے بڑے چیلنجز ہیں۔