اردوورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز )چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ نیب ترامیم کے بعد بین الاقوامی قانونی معاونت سے حاصل ہونے والے شواہد اب قابل قبول نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست کی سماعت کر رہا ہے۔ بنچ میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ بھی شامل ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دینے شروع کیے تو چیف جسٹس آف پاکستان نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ حارث اجازت دیں تو کیا مخدوم علی خان سے ایک بات پوچھوں؟
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کل ہم نے ترمیمی قانون میں ایک اور چیز دیکھی، باہمی قانونی تعاون کے تحت حاصل ہونے والے شواہد کی حیثیت ختم کر دی گئی، اب نیب کو وہاں خود خدمات لینا ہوں گی جو مہنگی پڑیں گی، کہا گیا کہ باہمی قانونی تعاون کے علاوہ بیرون ملک سے جائیدادوں کی خبریں آئی ہیں، قانون میں اس ذریعے سے حاصل ہونے والے شواہد قابل قبول نہیں۔
سماعت کے دوران نیب کی ترامیم کے بعد ریفرنسز کی واپسی سے متعلق رپورٹ پیش کی گئی۔
جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ کیا نیب نے ترمیم شدہ رپورٹ جمع کرائی ہے؟ نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ہاں، نیب نے رپورٹ جمع کرادی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ایف بی آر نے بیرون ملک سے حاصل کیا ریکارڈ عدالت میں قابلِ قبول شہادت کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔ کیا شکایت کنندہ کے حقوق پاکستان کے آئین میں درج ہیں؟
وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ آئین میں صرف ملزم کے حقوق اور فیئر ٹرائل کا ذکر ہے، پاکستان کا آئین شکایت کنندہ کے حقوق کی بات نہیں کرتا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ نیب ترامیم کے بعد بین الاقوامی قانونی معاونت کے ذریعے حاصل ہونے والے شواہد قابل قبول نہیں رہے، وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ ایف بی آر بیرون ممالک سے اثاثوں کی تفصیلات حاصل کرتا ہے۔