فیصلے میں کہا گیا کہ یہ استغاثہ کا معاملہ ہے کہ وزارت خارجہ نے سائفر کو ڈی کوڈ کر کے وزیر اعظم سیکرٹریٹ کو بھجوایا، چیئرمین پی ٹی آئی نے بطور وزیر اعظم سائفر وصول کیا اور گم کردیا۔
عدالتی فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ استغاثہ کے مطابق سائفر کے مندرجات کو توڑ مروڑ کر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا، سائفر بھیجنے والے دفتر خارجہ کے سابق اور موجودہ افسران بالخصوص اسد مجید کے بیانات موجود ہیں دفتر خارجہ کے افسران کے بیانات سے واضح ہے۔ اس میں کوئی غیر ملکی سازش نہیں
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس بات سے انکار نہیں کہ فیئر ٹرائل ملزم کا بنیادی حق ہے، آرٹیکل 10 اے کے تحت ملزم کو فیئر ٹرائل کا حق دیا جائے، ٹرائل کورٹ کے آبزرویشنز میں کسی قسم کی جانبداری نظر نہیں آتی۔
ہائی کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت میں پیش کی گئی دستاویزات کے مطابق دفتر خارجہ کی پالیسی واضح ہے، پالیسی کے مطابق سائفر کلاسیفائیڈ دستاویز ہے جسے غیر مجاز افراد کے ساتھ شیئر نہیں کیا جاسکتا، ، وکیل کے مطابق ملزم حکومت کا تختہ الٹنے کی غیر ملکی سازش کے بارے میں عوام کو بتانے کا پابند تھا۔
عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت گرانے کی سازش کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنے کی دلیل میں کوئی وزن نہیں، پی ٹی آئی چیئرمین بطور وزیراعظم اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بجائے سیاسی اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت استثنیٰ کی دلیل مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 248 وزیراعظم کو فرائض کی ادائیگی سے استثنیٰ سے متعلق ہے