اردوورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز )نیب ترامیم کے خلاف کیس میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ کا نوٹ سامنے آیا ہے جس میں جج نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے حتمی فیصلے تک آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت تمام مقدمات کی سماعت روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔
تفصیل کے مطابق دو صفحات پر مشتمل نوٹ میں جسٹس منصور نے کہا ہے کہ اگر آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت مقدمات کی سماعت ضروری ہے تو فل کورٹ تشکیل دیاجائے
واضح رہے کہ اس سے قبل نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود بھی پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کے فیصلے کے لیے اپنی رائے دے چکے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے تحریری نوٹ میں کہا ہے کہ ہم 19 جولائی 2022 سے نیب ترامیم کے خلاف کیس کی سماعت کر رہے ہیں، 16 مارچ کو کیس کی 46 ویں سماعت کے دن پارلیمنٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ نافذ کیا۔ سیکشن 184(3) کے مطابق چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی بنچ تشکیل دے گی، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے سیکشن 4 کے تحت آئین کی تشریح سے متعلق مقدمات کی سماعت لارجر بنچ کرے گاجو پانچ ممبرز پر مشتمل ہوگا
نوٹ میں کہا گیا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے نفاذ کے بعد ترامیم کی آخری سماعت 16 مئی کو ہوئی تھی، ، میری رائے تھی کہ نیب ترمیمی کیس کی مزید سماعت اس کے بعد کی جائے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کا فیصلہ، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے کیس کا فیصلہ کیے بغیر نیب ترمیمی کیس سمیت نیب ترمیمی کیس کو سماعت کے لیے مقرر کر دیا گیا۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ تمام زیر التوا مقدمات پر بھی لاگو ہوتا ہے۔
جسٹس منصور نے کہا کہ مجھے علم ہے کہ آٹھ رکنی لارجر بینچ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر حکم امتناعی جاری کیا ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف حکم امتناعی عبوری حکم ہے اگر پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ درست ہے، تو قانون سپریم کورٹ کے فیصلے کی تاریخ کے بجائے اس کے نفاذ کی تاریخ سے لاگو ہوگا کیس کا فیصلہ قانون کی نظر میں کالعدم ہو گا۔