اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انکشاف کیا ہے کہ بھارت کو امریکی تجارتی پابندیوں اور بھاری ٹیرف کے بعد بالآخر جھکنا پڑا، اور وزیراعظم نریندر مودی نے انہیں یقین دہانی کرائی ہے کہ بھارت اب روس سے تیل نہیں خریدے گا۔
ٹرمپ کے مطابق، انہوں نے بھارت پر 25 فیصد نیا ٹیرف عائد کیا ہے جس کے بعد مجموعی شرح 50 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ اس اقدام نے مودی حکومت پر شدید دباؤ ڈالا، جس کے نتیجے میں بھارت نے بالآخر امریکہ کے مطالبات مان لیے۔
امریکی صدر نے وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ > “بھارت اچھا تجارتی شراکت دار نہیں ہے۔ وہ روس سے تیل خرید کر یوکرین کی جنگی مشین کو ایندھن فراہم کر رہا ہے۔”ٹرمپ نے مزید کہا کہ بھارت نہ صرف روسی تیل خرید رہا ہے بلکہ اسے منافع کے ساتھ بیچ بھی رہا ہےجو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ “بھارت کو سمجھنا ہوگا کہ وہ امریکی تجارتی اصولوں کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا۔”
ٹرمپ کے مطابق، مودی نے انہیں یقین دلایا ہے کہ بھارت جلد ہی روس سے تیل کی خریداری روک دے گا۔انہوں نے کہا کہ > “مجھے خوشی نہیں تھی کہ بھارت روس سے تیل خرید رہا ہے، لیکن اب معاملہ طے پا گیا ہے۔ مودی نے مجھے یقین دہانی کرائی ہے کہ یہ سلسلہ جلد ختم ہو جائے گا۔”یہ یقین دہانی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکہ نے روس کے خلاف سخت معاشی پابندیاں نافذ کر رکھی ہیں اور دنیا بھر کے ممالک پر زور دے رہا ہے کہ وہ روسی توانائی مصنوعات نہ خریدیں۔
ٹرمپ انتظامیہ نے حالیہ ہفتوں میں بھارت پر 25 فیصد نیا ٹیرف عائد کیا ہے، جس کے بعد مجموعی تجارتی محصولات کی شرح 50 فیصد تک پہنچ گئی۔یہ اقدام بھارت کے لیے شدید معاشی دباؤ کا باعث بنا ہے کیونکہ امریکہ بھارت کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔تجزیہ کاروں کے مطابق، بھارتی برآمدات — خصوصاً ٹیکسٹائل، فارماسیوٹیکل، اور آئی ٹی مصنوعات — اب **سخت چیلنجز** سے دوچار ہوں گی۔
یہ دباؤ مودی حکومت کو اس بات پر مجبور کر رہا ہے کہ وہ واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کو مزید خراب ہونے سے بچانے کے لیے **روس سے فاصلے بڑھائے۔
صدر ٹرمپ نے ایک اور حیران کن مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ **ٹیکنالوجی کمپنی ایپل (Apple)** کو چاہیے کہ وہ **بھارت میں آئی فونز کی تیاری بند کرے۔ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اپنی صنعتوں کو بیرونِ ملک منتقلی کے بجائے واپس لانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، اور امریکی کمپنیاں امریکہ کے اندر پیداوار کریں، نہ کہ بھارت میں۔
یہ بیان بھارت کے لیے ایک اور اقتصادی دھچکا سمجھا جا رہا ہے، کیونکہ مودی حکومت نے پچھلے چند سالوں میں "Make in India” منصوبے کے تحت ایپل، سام سنگ، اور دیگر کمپنیوں کو بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے لیے راغب کیا تھا۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا یہ قدم دوہرا مقصد رکھتا ہے۔ایک طرف وہ بھارت پر دباؤ ڈال کر روس کے ساتھ اس کے تعلقات محدود کرنا چاہتے ہیں،اور دوسری طرف، امریکی ووٹرز کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ **“میں وہ صدر ہوں جو امریکی ملازمتیں واپس لا سکتا ہے اور غیر منصفانہ تجارت کے خلاف ڈٹ سکتا ہے۔”دوسری جانب بھارت میں اس اقدام کو “امریکی انتخابی سیاست کا حصہ” قرار دیا جا رہا ہے۔ بھارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ بھارت کو محض ایک سیاسی مہرہ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں تاکہ اپنے اندرونی حلقے میں "سخت موقف” کا تاثر پیدا کر سکیں۔
ٹرمپ کے تازہ اقدامات نے ایک بار پھر واضح کر دیا ہے کہ امریکہ کے ساتھ تجارتی تعلقات میں بھارت کی پوزیشن کمزور ہے۔بھاری ٹیرف، تیل کی پابندی، اور صنعتی دباؤ نے مودی حکومت کو ایک **مشکل سیاسی اور معاشی موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔اگرچہ بھارت نے روس سے تیل نہ خریدنے کی یقین دہانی کرا دی ہے، لیکن یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ آیا مودی حکومت واقعی اس پالیسی پر عمل کر پائے گی —کیونکہ روس بھارت کے لیے توانائی کا ایک سستا اور اہم ذریعہ ہے،جبکہ امریکہ اپنی معاشی بالادستی برقرار رکھنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار دکھائی دیتا ہے۔