اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیاں اب آپ کے چہرے تک پہنچ گئی ہیں۔
میٹا، گوگل، ایپل، اسنیپ، علی بابا اور شیاومی جیسے ادارے اگلی نسل کے اسمارٹ چشموں پر زور دے رہے ہیں جن میں مصنوعی ذہانت (AI) کی سہولت شامل ہے۔ان چشموں کا مقصد صارفین کو بغیر ہاتھ استعمال کیے مختلف کام کرنے کی سہولت دینا ہے، جیسے زبانوں کا ترجمہ، یاد دہانی، وڈیو ریکارڈنگ، اشیاء کی شناخت یا ریسٹورنٹ کی تجویز۔میٹا کے ریے-بین (Ray-Ban) اسمارٹ چشمے 2021 سے مارکیٹ میں ہیں اور اب تک سب سے آگے سمجھے جاتے ہیں۔ کمپنی نے اعلان کیا ہے کہ وہ 2026 تک سالانہ ایک کروڑ چشمے تیار کرنے کا ہدف رکھتی ہے۔ اندازوں کے مطابق 2024 میں دنیا بھر کی اسمارٹ گلاسز مارکیٹ کی مالیت تقریباً 1.9 ارب امریکی ڈالر تھی جو 2030 تک 8.2 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چونکہ بہت سے لوگ پہلے ہی عینک پہنتے ہیں، اس لیے اسمارٹ چشمے قدرتی انتخاب ہو سکتے ہیں۔ یہ چشمے موبائل فون کے متبادل کے طور پر بھی دیکھے جا رہے ہیں کیونکہ یہ آپ کی آنکھوں کے سامنے ہی AI سہولیات فراہم کرتے ہیں۔لیکن اس ٹیکنالوجی کے ساتھ سماجی اور پرائیویسی خدشات جڑے ہوئے ہیں۔ عدالتوں، عوامی مقامات اور حساس جگہوں پر ان کے غلط استعمال کے واقعات سامنے آ چکے ہیں، جیسے چپکے سے ویڈیو بنانا یا نگرانی کے مقاصد کے لیے استعمال کرنا۔
میٹا کے چشموں میں ویڈیو ریکارڈنگ کے دوران ایک چھوٹی لائٹ جلتی ہے لیکن عام لوگ شاید اسے پہچان نہ سکیں۔ اس کے علاوہ کمپنی صارفین کی آواز اور بات چیت کا ڈیٹا جمع کرتی ہے تاکہ اپنے AI ماڈلز کو بہتر بنا سکے۔ صارف کچھ ڈیٹا خود مٹا سکتا ہے لیکن مکمل طور پر اس عمل سے باہر نکلنے (opt out) کی سہولت موجود نہیں۔گوگل گلاس کی 2014 میں ناکامی اس بات کی مثال ہے کہ صرف نئی ٹیکنالوجی کافی نہیں، بلکہ ڈیزائن، قیمت اور سماجی قبولیت بھی ضروری ہے۔
مصنوعی ذہانت کی عالمی دوڑ میں سرمایہ کاروں کی دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر آپ AI کے بارے میں بات نہ کریں تو مارکیٹ آپ کو انعام نہیں دیتی۔ اسی لیے کمپنیاں اسمارٹ چشموں کو مستقبل کا مرکزی ڈیوائس قرار دے رہی ہیں۔میٹا کے سی ای او مارک زکربرگ نے کہا ہے کہ آنے والے برسوں میں یہ چشمے ہمارے بنیادی کمپیوٹنگ ڈیوائس بن جائیں گے، بالکل ویسے ہی جیسے آج کانٹیکٹ لینس عام ہیں۔ ان کے مطابق اگر مستقبل میں کسی کے پاس AI چشمے نہ ہوئے تو وہ دوسروں کے مقابلے میں "ذہنی کمی” کا شکار ہوگا۔
اسمارٹ چشمے نئی سہولتیں اور تیز رفتار کنیکٹیویٹی فراہم کر سکتے ہیں، لیکن ساتھ ہی پرائیویسی، ڈیٹا کے تحفظ اور سماجی قبولیت جیسے بڑے سوالات کھڑے کر رہے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی عام صارفین تک کس حد تک پہنچ پائے گی، یہ آنے والے چند برسوں میں واضح ہوگا۔