اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) امریکی محکمہ خارجہ نے ایک سخت موقف اختیار کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ایسے غیر ملکی افراد جو اسرائیل مخالف نعرے لگاتے ہیں یا تشدد کی حمایت کرتے ہیں، انہیں امریکہ کا ویزا جاری نہیں کیا جائے گا۔
بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب برطانیہ میں ہونے والے مشہور سالانہ میوزک ایونٹ **گلاسٹنبری فیسٹیول** کے دوران بعض گلوکاروں نے اسرائیل کے خلاف نعرے بازی کی، جن میں خاص طور پر آئرش ریپ گروپ نے "آزاد فلسطین” اور "اسرائیلی فوج کے لیے موت” جیسے نعرے لگائے۔امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ٹمی بروس نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ "ایسے افراد جو اسرائیل مخالف جذبات کا پرچار کرتے ہیں یا کسی بھی قسم کی پرتشدد کارروائی کی حمایت کرتے ہیں، انہیں امریکہ آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ امریکی ویزہ پالیسی واضح ہے: ہم تشدد، نفرت اور دہشت گردی کے حامیوں کو امریکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے۔”
ٹمی بروس نے مزید کہا کہ حماس غزہ کی موجودہ صورتحال کی براہ راست ذمہ دار ہے، اور اس نے حالیہ جنگ میں ہلاک ہونے والے **دو امریکی شہریوں کی باقیات** بھی واپس نہیں کیں، جس پر امریکہ کو شدید تحفظات ہیں۔ان کا کہنا تھا > "ہمارا قانون غیر ملکیوں کو ویزا دینے کے معاملے میں سخت ہے۔ اگر کوئی فرد ایسا رویہ یا بیانیہ اپناتا ہے جو کہ امریکی پالیسیوں، اتحادیوں یا انسانی حقوق کے عالمی اصولوں سے متصادم ہو، تو وہ امریکہ آنے کا حق کھو دیتا ہے۔”
برطانیہ کے معروف میوزک فیسٹیول "گلاسٹنبری” میں ہونے والے ایک کنسرٹ کے دوران **Kneecap** نامی آئرش ریپ بینڈ نے فلسطین کے حق میں آواز بلند کرتے ہوئے اسٹیج پر کھڑے ہو کر "فری فلسطین” اور "ڈیتھ ٹو اسرائیلی آرمی” جیسے نعرے لگائے۔ ان نعروں نے بین الاقوامی میڈیا اور سیاست دانوں کی توجہ حاصل کی اور سوشل میڈیا پر شدید ردعمل سامنے آیا۔امریکہ کی جانب سے یہ تازہ ترین بیان اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف کسی بھی قسم کی جارحانہ یا اشتعال انگیز بیان بازی کو برداشت نہیں کرے گا، خاص طور پر اگر اس کا تعلق تشدد یا دہشت گردی سے ہودوسری جانب انسانی حقوق کے کئی عالمی ادارے اور فلسطین کے حامی کارکنان اس امریکی پالیسی کو آزادیِ اظہار کے خلاف قرار دے رہے ہیں اور اسے یکطرفہ حمایت تصور کر رہے ہیں۔
امریکہ کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل اور غزہ کے درمیان جاری کشیدگی عالمی سطح پر ایک جذباتی اور سیاسی مسئلہ بن چکی ہے۔ واشنگٹن کی اس پالیسی کو اسرائیل کے ساتھ مضبوط سفارتی تعلقات کا تسلسل قرار دیا جا رہا ہے، جبکہ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے فیصلے عالمی سطح پر امریکہ کی غیر جانب دار حیثیت پر سوالات اٹھاتے ہیں۔مزید برآں، اس اقدام کے بعد امکان ہے کہ مختلف ملکوں میں امریکہ مخالف جذبات کو مزید تقویت ملے گی، خاص طور پر ان حلقوں میں جو فلسطینی عوام کے لیے آواز بلند کرتے ہیں۔