اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز )چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آرٹیکل 62 وین ایف کالا قانون ہے جس میں سیاستدانوں پر تاحیات پابندی عائد کی گئی ہے
چیف جسٹس نے یہ ریمارکس پی ٹی آئی رہنما فیصل واوڈا کی جانب سے امریکی شہریت سے متعلق جھوٹا حلف نامہ جمع کرانے سے متعلق کیس میں تاحیات نااہلی کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کے دوران دئیے
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے آج کیس کی سماعت کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 62(1)(f) ایک سخت قانون ہے اور ہم اس کیس کو احتیاط اور تفصیل سے سنیں گے۔
پی ٹی آئی کے فیصل واوڈا نے فروری میں سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 185(3) کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان (ECP) کے 9 فروری کے حکم اور 16 فروری کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کی اجازت کے لیے درخواست دائر کی تھی۔
واوڈا نے استدلال کیا تھا کہ ای سی پی کا حکم اور آئی ایچ سی کا فیصلہ صوابدیدی اور قانونی اختیار کے بغیر ہے اور اس کا کوئی قانونی اثر نہیں ہے، انہوں نے مزید کہا کہ یہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے بھی خلاف ہے۔
اپیل میں پی ٹی آئی رہنما نے استدعا کی کہ ای سی پی نے انہیں تاحیات نااہل قرار دینے کے لیے آرٹیکل 62(1)(f) کو استعمال کرنے کی کوئی وجہ نہیں بتائی۔ انتخابی ادارہ، اس نے مزید کہا، ایسا لگتا ہے کہ کسی بھی شخص کو آرٹیکل 63(1)(c) کے تحت نااہل قرار دیا گیا ہے دہری شہریت رکھنے کی وجہ سے کو آرٹیکل 62(1)(f) کے تحت خود بخود سزا دی جا سکتی ہے۔
سپریم کورٹ کے بنچ نے آج کیس کی سماعت کی تو واوڈا کے وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ ان کے موکل نے 2018 میں الیکشن لڑا تھا اور دو سال بعد ان کی نااہلی کے لیے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ای سی پی کے پاس جھوٹے حلف نامہ جمع کرانے کی تحقیقات کا اختیار ہے، انہوں نے مزید کہا کہ اگر سپریم کورٹ حکم امتناعی بھی لے لے تو بھی حقائق وہی رہیں گے۔
"الیکشن کمیشن نے فیصل واوڈا کے کیس میں حقائق کا درست جائزہ لیا ہے، یہاں سوال صرف یہ ہے کہ آیا الیکشن کمیشن تاحیات نااہلی کا حکم دے سکتا ہے یا نہیں۔”
بعد ازاں سماعت 6 اکتوبر تک ملتوی کر دی گئی۔
یا د رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف اور جہانگیر ترین دونوں کو مذکورہ آرٹیکل کے تحت تاحیات نااہل قرار دیا گیا تھا
آرٹیکل 62 (1) (f) کیا ہے؟
آئین کا آرٹیکل 62(1)(f) پارلیمنٹ کے اراکین کی اہلیت سے متعلق ہے اور یہ اصطلاح ‘صادق’ اور ‘امین’ سے متعلق ہے۔ تاہم، یہ نااہلی کی مدت کے لیے کوئی وقت کی حد مقرر نہیں کرتا ہے۔