تحریر: وقار مصطفیٰ
بھارت کی طرف سے آئینِ ہند کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کئے ہوئے چھ سال گزر چکے ہیں جب کہ بھارتی آئین کا یہ آرٹیکل مقبوضہ جموں و کشمیر کی آئینی خودمختاری کی آخری علامت تھی۔ پاکستان کے لیے 5 اگست محض ایک تاریخ نہیں بلکہ بھارتی دھوکہ دہی اور طاقت کے استعمال کی ایک پُرسوز علامت ہے۔ جسے بھارت نے ”انضمام” قرار دیا، پاکستان اور عالمی برادری نے اُسے ”چپکے سے الحاق” قرار دیا۔ 5 اگست 2019 کو بھارت نے نہ صرف بین الاقوامی اصولوں کی دھجیاں اڑائیں بلکہ اپنے ہی آئینی ڈھانچے کو بھی روند ڈالا۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کے لیے ایک اہم قانونی ڈھال آرٹیکل 370 کوختم کر دیا گیا۔ خطے کو دو وفاقی زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کیا گیا، خودمختاری چھین لی گئی، وہاں بھاری تعداد میں بھارتی افواج تعینات کر دی گئیں، اور کرفیو، لاک ڈاؤن اور خاموشی کی چادر تا ن دی گئی۔ پاکستان نے اسے غیرقانونی الحاق قرار دیا۔ بھارت نے اسے ”معمول” کہا۔
چھ برسوں سے بھارت اس اقدام کو قومی یکجہتی، معاشی ترقی اور امن کی بحالی کا ”ا قدام” قرار دیتا رہا، لیکن پاکستان اور اب خود بھارت کے اندر بھی اُبھرتی آوازیں اسے اصل میں اصلاحات کا لبادہ پہنایا گیا یک طرفہ فیصلہ کہتی ہیں۔ یہ عوام کی رضامندی مٹا دینے والا ایک نئی شکل میں قبضہ ہے۔
اپنی کتاب کشمیر ایٹ دی کراس روڈز میں ماہر سُمنترا بوس نے 2019 کے تنظیمِ نو ایکٹ کو ”ہتھوڑے اور کلہاڑے سے حملہ” قرار دیا جونہ صرف کشمیر کی خودمختاری پر بلکہ بھارت کے وفاقی ڈھانچے پر بھی ہواہے۔ ان کی جموں، کشمیر اور لداخ میں فیلڈ تحقیق ایک تلخ حقیقت کو بے نقاب کرتی ہے،ہر جگہ بے چینی ہے۔ یہاں تک کہ لداخ کے بدھ مت ماننے والے اور جموں کے کچھ ہندو بھی دہلی کے نوکرشاہی طرزِ حکومت اور معاشی غفلت پر خود کو دھوکہ کھائے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔ اور جیسا کہ 2024 کے انتخابات نے ثابت کیا، بی جے پی کا کشمیریوں کے لیے پیش کیا گیا وژن اُنہی کے لیے ناقابل قبول ثابت ہوا۔ ان انتخابات میں، جو پابندیوں کے بعد پہلے تھے، کشمیریوں نے خاموشی، نگرانی اور باڑوں کے باوجود ووٹ دیا۔ بی جے پی کو مکمل شکست ہوئی۔ دہلی کے حمایت یافتہ امیدوار مسترد کر د یئے گئے۔ پاکستان کے لیے یہ صرف انتخابات نہیں بلکہ ایک ریفرنڈم تھا۔ اور اس کا فیصلہ واضح تھا: کشمیر کی روح ابھی بھی آزاد ہے۔
اگر انتخابات سیاسی انکار کو ظاہر کرتے ہیں، تو دیباشیش چکرورتی جیسے تجزیہ کار ایک گہری اور مسلسل جاری اذیت کو بے نقاب کرتے ہیں —جسے وہ ”برصغیر کے سب سے شرمناک الزامات میں سے ایک، ٹوٹے وعدے، ادھورا غیر نوآبادیاتی عمل، اور ریاستی طاقت کی شہری وقار پر فتح” قرار دیتے ہیں۔ چکرورتی، جو کامن ویلتھ فیلو اور کالم نگار ہیں، اپنی تحریر میں اس بحران کی جڑیں 1947 میں تلاش کرتے ہیں: مہاراجہ ہری سنگھ کا مشروط الحاق اور اقوامِ متحدہ کی قرارداد 47 کے تحت رائے شماری ابھی تک پوری نہ ہونا بحران کی وہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ اصل دھوکہ آج بھی گونج رہا ہے۔ایک ایسا کشمیر جو ڈرونز کی نگرانی میں، خار دار تاروں میں جکڑا ہوا ہے، اور جہاں تقریباً 7 لاکھ بھارتی فوجی 80 لاکھ کی عام آبادی پرقبضہ جمائے ہوئے ہیں۔
کشمیر میں جمہوریت محض ایک دکھاوا ہے۔ انتخابات تو ہوتے ہیں، لیکن کرفیو، نگرانی کے ٹاورز، اور مسلح افواج کے مکمل سائے میں ہوتے ہیں جسے آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ (AFSPA) کے تحت چھوٹ حاصل ہے۔ یہاں انصاف تاخیر کا نہیں بلکہ انکار کا نام ہے۔ چکرورتی کے مطابق 2019 کی منسوخی کسی آئینی اصلاح کا عمل نہیں بلکہ ”آبادیاتی پیغام” تھا۔ جو باہر سے لوگ آ کر کشمیر میں بسنے والوں کے لئے گرین سگنل ہے تاکہ کشمیریوں کی شناخت اور سیاسی آواز کو کمزور کیا جا سکے۔ آرٹیکل 35-اے کی منسوخی نے غیر ریاستی افراد کے لیے مقبوضہ جموں و کشمیرکے دروازے کھول د یئے اور جب دہلی نے ترقی کے خواب دکھائے، تو حقیقت مزید خوفناک تھی۔ ورلڈ بینک اور یو این ڈی پی کے مطابق 2019 کے بعد فی کس آمدنی جمود کا شکار رہی یا کم ہوئی۔ نوجوانوں میں بیروزگاری 25 فیصد سے زائد ہے۔ سیاحت، جو کبھی ریڑھ کی ہڈی تھی، اب ریاستی کنٹرول میں ہے۔ 2022 کی یونیسف رپورٹ کے مطابق تقریباً 70 فیصد کشمیری بچے ذہنی صدمے اور پریشانی کے علامات ظاہر کرتے ہیں۔ چکرورتی لکھتے ہیں: کشمیر اب عالمی کنٹرول ٹیکنالوجیز، اسرائیلی ڈرون، امریکی نگرانی کے نظام اور روسی اسلحہ کی تجربہ گاہ بن چکا ہے۔ غرض یہ کہ ”کشمیری صارف نہیں بلکہ تجرباتی نمونے ہیں۔”
پاکستان اور عالمی برادری، جو حقِ خودارادیت پر یقین رکھتے ہیں، کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں، لیکن یہ یاد دہانی ضروری ہے: کشمیر ایک طے شدہ مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک کھلا زخم ہے اور بھارت چاہے جتنا بھی اختلافی آوازوں کو خاموش کرے، سچ ابھر کر سامنے آتا رہتا ہے۔ بین الاقوامی تنظیموں نے بھی آواز بلند کی ہے۔ 2024 میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارت کی کشمیر میں کارروائیوں پر ایک سخت رپورٹ شائع کی۔ جہاں جمہوریت بحال کرنے کا دعویٰ تھا، وہاں علاقہ جبر و ستم کا تھیٹر بن چکا ہے۔ صحافی، وکیل، کارکن، اور عام شہری گرفتار ہوتے ہیں، سفری پابندیوں کا سامنا کرتے ہیں، پاسپورٹ چھین لیے جاتے ہیں، اور ہر وقت نگرانی کی جاتی ہے۔ حکومت نہیں بلکہ کشمیری عوام، اختلاف، اور تاثر کاصرف انتظام باقی ہے۔
اکتوبر 2024 میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایف آئی ڈی ایچ نے ‘ یور لینڈ از اوور لینڈ ” کے عنوان سے ایک جامع رپورٹ شائع کی جس میں بتایا گیا کہ کس طرح بھارتی ریاست نے کشمیر میں زمین سے متعلق پالیسیوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ رپورٹ میں قانونی تبدیلیوں کو دستاویزی شکل میں بیان کیا گیا جو مقبوضہ جموں و کشمیرمیں بے دخلی، زمین پر قبضے، اور آبادیاتی تبدیلی کے لیے راستہ ہموار کرتی ہیں۔ انسدادِ تجاوزات کے نام پر ہانگ کانگ کے رقبہ کے برابر تقریباً 22 لاکھ کنال زمین قبضے میں لی گئی۔ زیادہ تر متاثرہ افراد مقامی گوجر اور بکروال برادریوں سے تھے۔ نہ کوئی ضابطہ، نہ معاوضہ، نہ مشاورت کی گئی۔ایف آئی ڈی ایچ کے مطابق یہ سب ایک بڑی ریاستی منصوبہ بندی کا حصہ
ہے جس کا مقصد کشمیر کی آبادیاتی شناخت کو تبدیل کرنا ہے۔ 2022 میں 2.5 کروڑ نئے ووٹرز کا اندراج اور انتخابی حلقوں کی نئی حد بندیاں کی گئیں جن کا مقصد ہندو اکثریتی جموں کو فائدہ دینا تھا۔ نئے ووٹرز اور نئی حد بندیاں کشمیری عوام کے ووٹ کی طاقت کو ختم کر چکی ہیں۔
دوسری جانب، صحافت، جو کبھی کشمیر یوں کی اذیت کی گواہی دیتی تھی، منظم انداز میں خاموش کر دی گئی ہے۔ الجزیرہ انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق 2019 کے بعد سے صحافیوں کو ہراسانی، نگرانی اور انسدادِ دہشت گردی کے مقدمات کا سامنا ہے۔ غیر ملکی صحافیوں کو رسائی نہیں دی جاتی۔ مقامی صحافیوں کو طلب کیا جاتا ہے، چھاپے مارے جاتے ہیں، اور انہیں خاموشی یا ریاستی انتقام میں سے ایک چننا پڑتا ہے۔ رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز اور ایمنسٹی جیسے اداروں کے مطابق میڈیا پریہ قدغن اتفاقیہ نہیں بلکہ ایک مکمل حکمتِ عملی ہے جس کا مقصد سچائی کو دبانا اور جھوٹے امن وسکون کی تصویر پیش کرنا ہے۔ چکرورتی کے الفاظ میں: ”کشمیر میں ایمرجنسی ہی معمول بن چکی ہے۔’ اے ایف ایس پی اے کے تحت فوج کو مکمل چھوٹ حاصل ہے۔ شہری بغیر مقدمے کے قید کیے جاتے ہیں۔ تشدد عام جبکہ جبری گمشدگیاں معمول ہیں۔ خاندان اپنے پیاروں کو بغیر کسی امید کے تلاش کرتے رہتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں، ‘ وادی جنگ کے لیے بننے والے قوانین کے تحت چلتی ہے چاہے بظاہر یا فرضی امن ہی کیوں نہ ہو۔” کشمیر خاموشی سے لہو لہان ہے۔ اس کا دکھ اور اذیت خبروں سے غائب ہے۔ کبھی ختم نہ ہونے والا صرف کرفیو باقی ہے نہ کھلنے والے اسکول اور نہ آنے والا مستقبل باقی ہے۔