رپورٹ کے مطابق فلور ملرز کو خدشہ ہے کہ بندرگاہوں پر گندم کی درآمد پر پابندی سے مختلف اقسام کے آٹے کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا، جس کی وجہ کراچی اور دیگر ممالک میں فلور ملوں تک اناج کی ترسیل کی لاگت میں اضافہ ہے۔
ملرز نے کہا کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ (KPT) کے محکمہ ٹریفک کی جانب سے اسٹیک ہولڈرز، کسٹم ایجنٹس اور ٹرمینل آپریٹرز کو 12 اکتوبر کو کراچی پورٹ پر ایکسل لوڈ ریجیم کے نفاذ کے حوالے سے ایک خط بھیجا گیا ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ نیشنل ہائی وے اینڈ موٹروے پولیس (NHMP) کی جانب سے وزن کی مشینیں لگانے اور وزن کی حد کو نافذ کرنے کے لیے چیئرمین KPT کی زیر صدارت ٹرانسپورٹرز ایسوسی ایشنز کے ساتھ میٹنگ ہوئی
میٹنگ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ہائی وے سیفٹی آرڈیننس (NHSO-2000) کے مطابق تمام بندرگاہوں پر نصب وزنی مشینوں پر ایک مقررہ وزن کی حد، حوالہ اور عمل درآمد کے لیے عائد کی جائے گی۔ قابل قبول حدود کی تفصیلات پر مشتمل ایک کاپی بھی فراہم کی جائے گی۔
کے پی ٹی کے خط میں کہا گیا ہے کہ بندرگاہ کے احاطے سے نکلتے وقت ایکسل کی گنجائش سے زیادہ لدے ٹرکوں کو نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ضوابط کی خلاف ورزی تصور کیا جائے گا اور ایسے ٹرکوں کو اب اجازت نہیں دی جائے گی۔
چیئرمین لوکل گڈز ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن پورٹ قاسم دین محمد نے کہا کہ پورٹ حکام نے گندم کی ترسیل کا وزن محدود کر دیا ہے جس سے خوراک کا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ این ایچ ایم پی کے بجائے بندرگاہیں لوڈ کم کرنے کے لیے کیوں متحرک ہو گئی ہیں۔ پورٹ قاسم پر 30 اور کراچی پورٹ پر 35 سے 40 ٹرک پھنسے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ابھی تک ایکسپورٹ کارگو کے لیے ایسا کوئی آرڈر نہیں ہے اور صرف گندم اور لوہے سے متعلقہ اشیا کو ہی اس قسم کے بحران کا سامنا ہے، ہم 2 دن انتظار کریں گے اور اگر یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو ہم لائحہ عمل طے کریں گے۔