اردو ولڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) اسرائیل کے متنازعہ "ای ون پلان” پر عالمی سطح پر شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ برطانیہ نے اس منصوبے کو بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی قراردے دیا ۔
خبردار کیا ہے کہ یہ اقدام مستقبل کی فلسطینی ریاست کو ٹکڑوں میں بانٹنے کی ایک سنگین کوشش ہے، جبکہ فلسطینی قیادت نے کہا ہے کہ یہ منصوبہ ’’دو ریاستی حل‘‘ کو مکمل طور پر دفن کرنے کے مترادف ہے۔برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے اسرائیلی حکومت پر زور دیا کہ وہ مغربی کنارے میں یہودی آباد کاری کا منصوبہ فوری طور پر واپس لے، ورنہ خطے میں امن کی کوششیں شدید نقصان اٹھائیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی علاقوں کا جغرافیائی تسلسل توڑنا عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور عالمی برادری کو اس پر خاموش نہیں رہنا چاہیے۔
ای ون پلان کیا ہے ؟
یہ منصوبہ مغربی کنارے کو مشرقی یروشلم سے الگ کر دے گا، جس کے نتیجے میں فلسطینی علاقوں کے درمیان آمدورفت مشکل ہو جائے گی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس کے بعد مستقبل میں ایک یکجا فلسطینی ریاست کا قیام تقریباً ناممکن ہو جائے گا۔مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم پر اسرائیل کا قبضہ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد سے متنازعہ ہے۔ فلسطینی عوام اور ان کی قیادت بارہا کہہ چکے ہیں کہ اسرائیلی آباد کاری کے منصوبے امن عمل کو تباہ کر رہے ہیں اور خطے میں کشیدگی بڑھا رہے ہیں۔
فلسطینی قیادت کا مؤقف
فلسطینی صدر محمود عباس نے اسرائیل کے اس منصوبے کو ’’نسل پرستی پر مبنی قبضے کی پالیسی‘‘ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ای ون پلان فلسطینی عوام کے حقِ خودارادیت پر براہِ راست حملہ ہے۔حماس نے بھی اس منصوبے کو ’’قبضے کو مزید مستحکم کرنے کی صیہونی سازش‘‘ کہا اور خبردار کیا کہ اگر اسرائیل اس پر عملدرآمد کرتا ہے تو خطے میں مزاحمت کی نئی لہر اٹھ سکتی ہے۔
عالمی برادری کا ردعمل
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے ایک بیان میں کہا کہ یہودی بستیوں کی تعمیر بین الاقوامی قوانین، بالخصوص چوتھے جنیوا کنونشن، کی خلاف ورزی ہے اور اس سے امن کے امکانات مزید معدوم ہو جائیں گے۔یورپی یونین نے بھی اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ منصوبہ واپس لے کیونکہ یہ ’’دو ریاستی حل‘‘ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں نے خبردار کیا کہ فلسطینی علاقوں کو تقسیم کرنے کا یہ منصوبہ ہزاروں خاندانوں کو بے گھر کر سکتا ہے اور انسانی بحران کو مزید گہرا کرے گا۔