اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) پورٹسمتھ (برطانیہ) برطانیہ کے شہر پورٹسمتھ میں ہونے والے ایک میوزک فیسٹیول میں مشہور آئرش فوک بینڈ “دی میری والپر کو اسٹیج سے زبردستی ہٹا دیا گیا
جب انہوں نے پرفارمنس کے دوران فلسطینی پرچم لہرایا اور نعرے لگائے: “فری فلسطین”۔ بینڈ نے محض بیس منٹ تک گایا ہی تھا کہ اچانک منتظمین نے مائیکروفون بند کر دیے اور انہیں اسٹیج سے اتار دیا۔ اس واقعے نے حاضرین کو حیران اور برہم کر دیا۔
منتظمین کا مؤقف
فیسٹیول کے منتظمین نے دعویٰ کیا کہ مائیکروفون اس لیے بند کیے گئے کیونکہ بینڈ نے *“نسلی تعصب پر مبنی الفاظ” استعمال کیے تھے، اور اس کا تعلق فلسطین کے حق میں لگائے گئے نعروں سے نہیں تھا۔لیکن “دی میری والپرز” نے اس الزام کو مسترد کر دیا اور کہا کہ ان کی پرفارمنس روکے جانے کی اصل وجہ صرف فلسطینی پرچم لہرانا تھا۔ بینڈ نے کہا کہ وہ گزشتہ چھ سال سے مسلسل یہ عمل کر رہے ہیں مگر کبھی بھی اس طرح کے رویے کا سامنا نہیں ہوا۔بینڈ نے اپنا مؤقف واضح کرتے ہوئے کہا: *“ہم ہر دن اور ہر لمحہ ‘فری فلسطین’ کہتے رہیں گے۔”*
شائقین اور دیگر بینڈز کا ردعمل
بینڈ کے مداحوں نے منتظمین کے رویے پر سخت تنقید کی اور انہیں “بزدل” قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آزادیٔ اظہار کو دبانا ناقابلِ قبول ہے۔اسی دوران شمالی آئرلینڈ کے مشہور بینڈ “نی کیپ” (Kneecap) نے بھی “دی میری والپرز” کی حمایت کی۔ انہوں نے کہا کہ انگلینڈ میں جو بھی نسل کشی کے خلاف آواز بلند کرتا ہے، اسے مجرم بنا دیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ Kneecap کے مرکزی گلوکار لیام پر گزشتہ برس لندن میں حزب اللہ کا جھنڈا لہرانے پر دہشت گردی کے الزامات بھی عائد کیے گئے تھے۔
“دی میری والپرز” طویل عرصے سے فلسطینی عوام کے حق میں آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ نومبر میں “گِگ فار غزہ”کے نام سے ایک خصوصی کنسرٹ بھی منعقد کیا تھا جس کی آمدنی غزہ کے متاثرین کی مدد کے لیے دی گئی تھی۔اس واقعے نے ایک بار پھر یہ بحث چھیڑ دی ہے کہ برطانیہ اور مغربی ممالک میں فلسطین کے حق میں آواز بلند کرنے والوں کو آزادیٔ اظہار کے بجائے سختیوں کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے۔