اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) کینیڈا کے وزیرِاعظم مارک کارنی نے بدھ کے روز جو معاشی وژن پیش کیا،
وہ محض ایک بجٹ اعلان نہیں بلکہ ایک قومی سمت کی تبدیلی کا اشارہ ہے۔ ان کا عزم کہ اگلی دہائی میں کینیڈا کی غیر امریکی برآمدات کو دوگنا کیا جائے گا، یہ واضح پیغام دیتا ہے کہ اوٹاوا اب امریکہ پر انحصار ختم کرنے اور خودمختار عالمی کردار اپنانے کے لیے تیار ہے۔یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجارتی پالیسیوں نے شمالی امریکہ کی دہائیوں پر محیط اقتصادی شراکت کو غیر یقینی بنا دیا ہے۔ کارنی نے بجا طور پر کہا کہ امریکہ سے قریبی تعلقات جو کبھی ہماری طاقت تھے، اب ہماری کمزوری بنتے جا رہے ہیں۔ یہ احساس دراصل کینیڈا کے لیے **نئی حقیقت کا ادراک** ہے — ایک ایسی حقیقت جس میں معاشی بقا کا انحصار تنوع، ہنرمندی اور عالمی مسابقت پر ہوگا۔
کارنی کی تقریر کا سب سے نمایاں پہلو ان کا یہ اعتراف تھا کہ آنے والی تبدیلی آسان نہیں ہوگی۔انہوں نے واضح کیا کہ “یہ تبدیلی کچھ مہینوں یا آسان فیصلوں سے نہیں آئے گی، بلکہ اس کے لیے **قربانی اور وقت درکار ہوگا۔”یہ بیان اگرچہ عوام کے لیے سخت سنائی دے سکتا ہے، مگر حقیقت یہی ہے کہ معاشی اصلاحات ہمیشہ وقتی مقبولیت کے بجائے **طویل مدتی استحکام** کا تقاضا کرتی ہیں۔
کارنی کی حکمتِ عملی میں یہ امر قابلِ تحسین ہے کہ انہوں نے کفایت شعاری کے باوجود سماجی بہبود کے منصوبے* مثلاً دانتوں کی نگہداشت، بچوں کی دیکھ بھال اور اسکول فوڈ پروگرام کو برقرار رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت **ریاستی ذمہ داری اور مالی نظم و ضبط** کے درمیان توازن پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ساتھ ہی، وہ انفراسٹرکچر، ہاؤسنگ اور مہارتوں کے فروغ کے پروگراموں کو بھی تیز کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومت مستقبل کی معیشت کو پیداواری سرمایہ کاری** کی بنیاد پر استوار کرنا چاہتی ہے، نہ کہ محض قرضوں پر۔
دوسری جانب Desjardins کی تازہ رپورٹ نے تشویش کی گھنٹی بجا دی ہے۔اگر وفاقی خسارہ 70 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا تو یہ پچھلے 30 سالوں میں سب سے بڑا بجٹ خسارہ ہوگا (سواِے عالمی مالیاتی بحران اور کووِڈ کے برسوں کے)۔یہ بڑھتا ہوا خسارہ محض اعداد کا کھیل نہیں، بلکہ ایک سیاسی اور معاشی چیلنج ہے۔ کارنی کو نہ صرف عوام بلکہ اپوزیشن — خاص طور پر پیر پولی ایور کو یہ یقین دلانا ہوگا کہ یہ خسارہ سرمایہ کاری کی حکمتِ عملی کا حصہ ہے، نہ کہ مالی بے احتیاطی کا۔کارنی نے اپنی تقریر میں نوجوانوں سے براہِ راست خطاب کرتے ہوئے کہ > “یہ ہمارا ملک ہے، تمہارا مستقبل ہے — ہم تمہیں واپس دے رہے ہیں۔”یہ جملہ علامتی طور پر اس بات کا اعلان ہے کہ آنے والا دور روایتی معیشت کا نہیں، بلکہ جدت، مہارت اور خود انحصاری کا ہوگا۔کینیڈا اب اپنی سمت بدلنے جا رہا ہے — ایک ایسے ملک کے طور پر جو **امریکہ کے سائے سے نکل کر** خود عالمی مسابقت میں “play to win” کے جذبے کے ساتھ اترنے کو تیار ہے۔