جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ بنچ میں جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔
سماعت کے آغاز پر جواد ایس خواجہ کے وکیل احمد حسین پیش ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ میں پچھلی سماعت کا حکم پڑھنا چاہتا ہوں۔
بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ گزشتہ سماعت میں اٹارنی جنرل روسٹرم پر تھے اس لیے اٹارنی جنرل پہلے اپنے دلائل مکمل کریں۔ وکیل سابق چیف جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ 3 اگست کا حکم نامہ عدالت کے سامنے پڑھنا چاہتا ہوں، جس پر جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ ہم نے وہ حکم نامہ پڑھ لیا ہے۔
جسٹس اعجاز الحسن نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جناب اٹارنی جنرل آپ حتمی دلائل دیں، پھر دیکھیں گے کہ عدالتی کارروائی کیسے آگے بڑھائی جاتی ہے۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ فوجی عدالتوں نے عدالت میں یقین دہانی کے باوجود شہریوں کا ٹرائل شروع کر دیا، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہمیں اس کا علم ہے، ہم پہلے اٹارنی جنرل کو سنیں گے۔
اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں گزشتہ سماعت کی سمری دوں گا اور بتاؤں گا کہ موجودہ ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم کیوں ضروری نہیں تھی، آرٹیکل 175 پر بھی بات کروں گا، لیاقت حسین کیس کا پیراگراف بھی پڑھوں گا، 21۔ پہلی آئینی ترمیم کے فیصلے کی روشنی میں دلائل بھی دوں گا اور اس سوال کا بھی جواب دوں گا کہ فرد جرم عائد ہونے کے بعد ملزم کی حیثیت حاصل ہوتی ہے یا نہیں۔