اردوورلڈکینیڈا( ویب نیوز)چمن میں افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کا عمل ایک دن کے وقفے کے بعد دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔ یہ عمل اس وقت روک دیا گیا تھا جب سرحدی قصبے کے ایک مصروف ٹیکسی اڈے کے قریب دھماکا ہوا تھا، جس میں کم از کم چھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
حکام کے مطابق دھماکے کے وقت بڑی تعداد میں افغان خاندان بارڈر پر موجود تھے جو اپنے وطن واپس جانے کے منتظر تھے۔ واقعے کے فوراً بعد بارڈر کراسنگ کو بند کر کے لوگوں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا۔
سیکیورٹی اداروں نے جمعہ کو علاقے کی مکمل تلاشی لینے کے بعد نقل و حرکت بحال کر دی۔ حکام کا کہنا ہے کہ پناہ گزینوں کو دوبارہ بارڈر کی طرف جانے کی اجازت دینے سے پہلے پورے علاقے کو صاف کیا گیا تاکہ مزید خطرہ نہ رہے۔
جمعرات کی شام ہونے والے دھماکے میں چار افراد موقع پر ہی ہلاک ہوئے، جبکہ دو زخمی بعد میں چل بسے۔ اسسٹنٹ کمشنر چمن امتیاز بلوچ نے تصدیق کی کہ دھماکا ٹیکسی اسٹینڈ کے قریب قائم عارضی دکانوں کے پاس ہوا تھا۔
عینی شاہدین اور مقامی صحافیوں نے بتایا کہ دھماکے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ انسانی اعضا دور دور تک بکھر گئے۔ پولیس کے مطابق ابتدائی تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ دھماکا خیز مواد دکانوں کے باہر رکھا گیا تھا۔
بلوچستان کے محکمہ داخلہ نے واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے اور عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ تفتیش میں مدد فراہم کریں۔ حکام نے کہا کہ ذمہ داروں کو قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔
یاد رہے کہ پاکستان نے پچھلے سال غیر قانونی افغان باشندوں کی واپسی کی مہم شروع کی تھی تاکہ سیکیورٹی انتظامات بہتر بنائے جا سکیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دس لاکھ سے زائد افغان شہری بغیر کاغذات کے پاکستان میں مقیم ہیں، اور پالیسی کے نفاذ کے بعد ہزاروں افراد کو چمن اور طورخم سرحدوں کے ذریعے واپس بھیجا جا چکا ہے۔
حکام کے مطابق یہ مہم صرف ان لوگوں کو پاکستان میں رہنے کی اجازت دینے کے لیے ہے جن کے پاس درست ویزے اور رجسٹریشن کارڈ موجود ہیں، تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس پالیسی کو سخت اور اچانک قرار دیتے ہوئے تنبیہ کی ہے کہ واپسی کرنے والے افراد افغانستان میں مشکلات، بے روزگاری اور بنیادی سہولتوں کی کمی کا سامنا کریں گے۔