اردوورلڈکینیڈا( ویب نیوز)اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج، جسٹس محسن اختر کیانی نے عدلیہ کے داخلی مسائل اور ججز کے تحفظ سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیف جسٹس پاکستان اور آئینی بینچ کے سربراہ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں آ کر ججز کے ساتھ بیٹھنا چاہیے۔ ان کے بقول، اگر سب جج ایک ہی میز پر بیٹھ کر کھل کر تبادلہ خیال کریں تو بہت سے مسائل فوری طور پر حل ہو سکتے ہیں اور غلط فہمیاں بھی ختم ہوں گی۔
ایک تقریب کے دوران صحافیوں سے بات کرتے ہوئے جسٹس محسن اختر کیانی نے ججز کو درپیش دباؤ اور مشکلات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ بعض اوقات عدلیہ کے ارکان کو کٹہرے میں کھڑے ہو کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ خود ملزم ہوں، جو کہ ججوں کے منصب اور وقار کے منافی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ججز کے احترام اور آزادی کو یقینی بنانے کے لیے عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
جب ایک صحافی نے ججز کی یونین بنانے کے حوالے سے سوال کیا تو جسٹس محسن اختر کیانی نے اس تاثر کو رد کیا اور کہا کہ معاملہ یونین بنانے کا نہیں بلکہ اصول اور ضمیر کی بات ہے۔ ان کے مطابق، ججز کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی صرف ادارے کی آزادی کے تحفظ کے لیے ہونی چاہیے، نہ کہ کسی گروہی مفاد کے لیے۔
اداروں کی طرف سے ججز کو دی جانے والی مبینہ دھمکیوں کے بارے میں سوال پر جسٹس کیانی نے واضح کیا کہ یہ معاملہ فی الحال سپریم جوڈیشل کونسل اور چیف جسٹس کے سامنے زیرِ التواء ہے، اس پر ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ جب صحافی نے استفسار کیا کہ کیا یہ دھمکیاں بھی پینڈنگ ہیں تو انہوں نے مختصر جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہاں، معاملہ ابھی پینڈنگ ہے۔
ان کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدلیہ کے اندر ججز کو درپیش مسائل سنگین نوعیت کے ہیں اور انہیں حل کرنے کے لیے اعلیٰ عدلیہ کی سطح پر کھلی بات چیت اور مشترکہ فیصلے کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، جسٹس محسن اختر کیانی کا یہ موقف نہ صرف ججز کے اندرونی تحفظات کی عکاسی کرتا ہے بلکہ عدلیہ کے وقار اور آزادی کے لیے بھی ایک اہم یاد دہانی ہے۔