اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) امریکہ کی متعدد شراب بنانے والی کمپنیوں اور تنظیموں نے کینیڈا کے بعض صوبوں پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ مقامی اسپرٹ (شراب) بنانے والوں اور ریٹیلرز کو غیر منصفانہ فائدہ پہنچا رہے ہیں،
جس کے نتیجے میں امریکی مصنوعات کو کینیڈین مارکیٹ میں امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ڈسٹلڈ اسپرٹس کونسل آف دی یونائیٹڈ اسٹیٹس (DISCUS) نے اس سلسلے میں 77 صفحات پر مشتمل ایک تفصیلی رپورٹ امریکی دفترِ نمائندہ برائے تجارت (USTR) کے سربراہ جیمیسن گریئر کو ارسال کی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے مختلف حصوں میں امریکی اسپرٹس انڈسٹری کو تجارتی رکاوٹوں اور امتیازی پالیسیوں کا سامنا ہے، جن میں کینیڈا نمایاں طور پر شامل ہے۔رپورٹ کے مطابق، ان 77 صفحات میں سے چھ صفحات صرف کینیڈا کے حوالے سے مختص کیے گئے ہیں، جن میں نوا اسکاٹیا اور دیگر صوبوں کی پالیسیوں پر خاص طور پر تنقید کی گئی ہے۔ امریکی ڈسٹلریز کا دعویٰ ہے کہ ان صوبوں میں مقامی شراب کو ترجیح دی جا رہی ہے جبکہ امریکی مصنوعات پر اضافی مارک اپ اور محدود شیلف اسپیس جیسے اقدامات نافذ کیے گئے ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مختلف شعبوں پر عائد کیے گئے ٹیرف کے ردعمل میں، کینیڈا کے کم از کم دو صوبوں نے امریکی شراب کو سرکاری ریٹیل اسٹورز کی شیلفوں سے مکمل طور پر ہٹا دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان صوبوں میں امریکی شراب کی فروخت عملی طور پر بند کر دی گئی ہے۔ڈسٹلڈ اسپرٹس کونسل نے امریکی تجارتی نمائندے جیمیسن گریئر، جنہیں صدر ٹرمپ نے فروری میں اس عہدے پر تعینات کیا تھا، سے اپیل کی ہے کہ وہ کینیڈا اور اس کے صوبوں پر دباؤ ڈالیں تاکہ صوبائی شراب کارپوریشنز (NSLCs وغیرہ) کی جانب سے نافذ کی گئی مبینہ طور پر جانبدارانہ ڈسٹلڈ اسپرٹس مارک اپ پالیسیوں کو تبدیل کروایا جا سکے۔
امریکی صنعت کا مؤقف ہے کہ یہ اقدامات نہ صرف آزاد تجارت کے اصولوں کے منافی ہیں بلکہ کینیڈا۔امریکہ تجارتی تعلقات کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں، خاص طور پر ایسے وقت میں جب دونوں ممالک کے درمیان تجارتی معاہدوں اور ٹیرف سے متعلق پہلے ہی تناؤ پایا جاتا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا واشنگٹن اس معاملے میں باضابطہ سفارتی یا تجارتی سطح پر کوئی قدم اٹھاتا ہے یا نہیں، اور آیا کینیڈا کے صوبے اپنی پالیسیوں پر نظرِ ثانی کے لیے تیار ہوتے ہیں یا نہیں۔