ڈیجیٹل کرنسی کی قدر پاکستانی روپے کے برابر ہوگی، جس طرح چین کی ڈیجیٹل کرنسی کی ایک اکائی چینی یوآن کے برابر ہے، اور اسے اسٹیٹ بینک کی مکمل حمایت حاصل ہوگی۔
یہ کاغذات قانونی ٹینڈر یعنی کرنسی کی طرح حکومتی گارنٹی کی بنیاد پر جاری کیے جائیں گے۔ اسٹیٹ بینک نے ڈیجیٹل کرنسی کی تیاری کے لیے کام شروع کردیا ہے اور اس سلسلے میں ماہرین کی خدمات بھی حاصل کی جارہی ہیں۔
اس کے لیے سینٹرل بینک ڈیجیٹل کرنسی (سی بی ڈی سی) نامی ادارہ تمام باریکیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی لاگت اور دیگر عوامل کا جائزہ لینے کے لیے کام کر رہا ہے اور ڈیجیٹل کرنسی شروع کرنے کے بعد اس میں کوئی کمی یا نقص نہیں ہونا چاہیے۔
منصوبہ یہ ہے کہ اسے بتدریج نافذ کیا جائے اور کاغذی نوٹوں کے استعمال کو کم کیا جائے، بالآخر 90 فیصد ڈیجیٹل کرنسی استعمال کی جائے گی اور صرف 10 فیصد کاغذی نوٹ استعمال کیے جائیں گے۔ وہ بھی صرف اس لیے کہ کسی بڑے مسئلے کی صورت میں متبادل کرنسی موجود ہو، نظام ٹھپ نہ ہو جائے۔
ڈیجیٹل کرنسی متعارف ہونے سے کاغذی نوٹوں کی چھپائی، انہیں محفوظ طریقے سے مختلف شہروں اور دیہاتوں تک پہنچانے اور پرانے نوٹوں کو تلف کرنے کی لاگت میں بھی کمی آئے گی۔
دوسری جانب نوٹ چھپ کر تقسیم کیے جاتے ہیں لیکن وہ کہاں اور کس مقصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں یہ معلوم نہیں ہو سکتا تاہم ڈیجیٹل کرنسی سسٹم میں کرنسی سے ہونے وا لے ہر لین دین کا ریکارڈ موجود ہوگا۔ مثال کے طور پر، صرف کریڈٹ اور ڈیبٹ کی ڈبل انٹری ریکارڈ کیپنگ نہیں ہوگی، بلکہ تیسرا مکمل ریکارڈ برقرار رکھا جائے گا۔ اس طرح مالیاتی پالیسی کو بہتر اور موثر انداز میں نافذ کیا جائے گا۔