21
اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) مشرقِ وسطیٰ میں جاری کشیدگی اور غزہ سمیت مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر حالیہ اسرائیلی حملوں کے بعد دنیا کے مختلف خطوں میں غم و غصہ شدت اختیار کر گیا ہے۔
یورپی دارالحکومت برسلز، اٹلی کے تاریخی شہر میلان اور اسرائیل کے ہی شہر تل ابیب میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے۔ مظاہرین نے نہ صرف اسرائیلی پالیسیوں پر سوال اٹھایا بلکہ فلسطینی عوام کے لیے عملی مدد اور انسانی حقوق کے تحفظ کا مطالبہ بھی کیا۔
برسلز میں وسیع احتجاج
بیلجیم کا دارالحکومت برسلز، جو یورپی یونین اور نیٹو ہیڈ کوارٹرز کے باعث عالمی سیاست کا مرکز مانا جاتا ہے، اتوار کو غیر معمولی منظر پیش کر رہا تھا۔ شہریوں کی بڑی تعداد ہاتھوں میں فلسطینی پرچم، بینرز اور "End the Occupation” جیسے نعرے درج پلے کارڈ اٹھائے یورپی کمیشن کے مرکزی دفتر کی طرف مارچ کرتی رہی۔مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق اندازاً پچاس ہزار سے زائد افراد نے پرامن ریلی میں شرکت کی۔ مظاہرین نے نہ صرف فوری جنگ بندی بلکہ اسرائیل پر اقتصادی پابندیوں اور فوجی ساز و سامان کی ترسیل روکنے کا مطالبہ کیا۔ انسانی حقوق کی متعدد تنظیمیں جیسے "ایمنسٹی انٹرنیشنل بیلجیم” اور "بیلجیم سول سوسائٹی فار پیس” بھی اس احتجاج کا حصہ بنیں۔
ریلی کے دوران یورپی رہنماؤں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ صرف زبانی مذمت تک محدود نہ رہیں بلکہ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر سخت سفارتی اقدامات کریں۔ شرکاء نے کہا کہ یورپی یونین کو اسرائیل کے ساتھ تجارتی مراعاتی معاہدوں پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے تاکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر دباؤ بڑھ سکے۔
میلان میں اظہارِ یکجہتی
اٹلی کے معروف صنعتی و ثقافتی مرکز میلان میں بھی ہزاروں افراد نے مرکزی چوک "پیاتزا ڈیل دومو” سے جلوس نکالا۔ مظاہرین نے فلسطینی ثقافتی لباس پہنے، عربی و اطالوی زبان میں نعرے بلند کیے: "فلسطین آزاد ہوگا” اور "بچوں پر بمباری بند کرو”۔اطالوی پارلیمنٹ کے چند ارکان نے بھی شرکت کر کے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اسلحہ کی تجارت بند کرے۔ کئی مقررین نے کہا کہ یورپ کے عوام اب خاموش تماشائی نہیں رہ سکتے، کیونکہ ہر روز درجنوں فلسطینی جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔ مظاہرے کے اختتام پر شرکاء نے غزہ کے شہداء کے ایصالِ ثواب کے لیے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی۔
تل ابیب میں انوکھا منظر
دلچسپ امر یہ ہے کہ اسرائیل کے اہم شہر تل ابیب میں بھی شہریوں کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر نکلی۔ یہ مظاہرین نیتن یاہو حکومت کی جنگی پالیسیوں کے مخالف تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلسل عسکری کارروائیوں نے اسرائیلی معاشرے کو بھی عدم تحفظ اور عالمی تنقید کے گرداب میں دھکیل دیا ہے۔شرکاء نے بینرز پر "Ceasefire Now” اور "Stop the Killing” جیسے جملے تحریر کیے۔ بعض مظاہرین نے میڈیا کو بتایا کہ وہ اسرائیلی حکومت کے جارحانہ رویے کے سبب دنیا بھر میں اپنے ملک کے تنہائی کا شکار ہونے سے پریشان ہیں۔ چند مظاہرین نے زور دیا کہ دیرپا امن کے لیے سیاسی حل نکالنا اور فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا ناگزیر ہے۔
لندن کی حالیہ صورتحال کا حوالہ
اس سے قبل برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں بھی فلسطینی حمایت میں ایک بڑی ریلی نکالی گئی تھی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پولیس نے مختلف مقامات پر جھڑپوں کے بعد آٹھ سو سے زائد افراد کو حراست میں لیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس اقدام پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ پُرامن احتجاج کو دبانا جمہوری اقدار کے منافی ہے۔
عالمی سطح پر ردِعمل
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے حالیہ دنوں میں کئی بار فریقین پر زور دیا ہے کہ فوری طور پر جنگ بندی کی جائے اور انسانی امداد کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ یورپی یونین کے بعض رہنماؤں نے اسرائیلی پالیسیوں پر تنقید کی جبکہ امریکا سمیت کچھ ممالک نے دونوں فریقین کو مذاکرات کی میز پر آنے کا مشورہ دیا۔ماہرین کے مطابق برسلز، میلان اور تل ابیب جیسے شہروں میں ہونے والے احتجاج محض وقتی ردعمل نہیں بلکہ عالمی ضمیر کی بیداری کی علامت ہیں۔ سوشل میڈیا پر لاکھوں صارفین نے #FreePalestine اور #StopTheWar جیسے ہیش ٹیگ ٹرینڈ کر کے مظاہرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔
ا انسانی المیہ اور میڈیا کوریج
غزہ اور مغربی کنارے میں جاری انسانی المیے کی تصاویر اور ویڈیوز نے عالمی رائے عامہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اسپتالوں کی تباہی، بے گھر ہونے والے لاکھوں افراد اور بچوں کی اموات کے دلخراش مناظر دنیا کے بڑے نیوز چینلز پر نمایاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ سمیت کئی خطوں میں نوجوان طبقہ پہلے سے زیادہ متحرک دکھائی دیتا ہے۔
تاریخی تناظر
فلسطین کا مسئلہ سات دہائیوں سے زائد پر محیط تنازع ہے جس میں بے شمار جنگیں، امن معاہدے اور ناکام مذاکرات ہو چکے ہیں۔ 1993 کے اوسلو معاہدے کے باوجود آج تک فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں نہیں آ سکا۔ اس پس منظر میں حالیہ احتجاجات ایک نئی لہر کی حیثیت رکھتے ہیں جو عالمی طاقتوں پر دباؤ بڑھانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔