اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ غزہ سے کسی کو بھی زبردستی بے دخل نہیں کیا جائے گا
اور یہ کہ غزہ امن منصوبے پر تمام فریقین کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ ٹرمپ نے یہ بات اوول آفس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اتوار کو مشرقِ وسطیٰ کے دورے پر روانہ ہوں گے اور امید ہے کہ وہ پیر یا منگل کے روز اسرائیل میں یرغمالیوں کی رہائی کے وقت موجود ہوں گے
صدر ٹرمپ نے کہا کہ > “غزہ سے کسی کو بھی زبردستی نکالنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ ہم نے یہ امن معاہدہ تمام متعلقہ فریقوں کی رضامندی سے طے کیا ہے، اور سب اس پر متفق ہیں۔”انہوں نے مزید کہا کہ امن معاہدے کے بعد وہ دیکھیں گے کہ اگلے اقدامات کیا ہونے چاہییں تاکہ خطے میں پائیدار استحکام قائم کیا جا سکے۔
ٹرمپ نے فن لینڈ کے صد رکے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کے دوران کہاکہ > “یرغمالی پیر یا منگل کو واپس آئیں گے — اور میں شاید وہاں موجود ہوں گا۔ ہم اتوار کو روانہ ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں، اور میں اس لمحے کا منتظر ہوں۔”انہوں نے کہا کہ یرغمالیوں کی رہائی کے بعد **اگلے مرحلے کے فیصلے کیے جائیں گے تاکہ امن کے عمل کو مزید مضبوط کیا جا سکے۔
ایک صحافی کے سوال پر کہ کیا اسرائیل اگلے سال کے اندر سعودی عرب کے ساتھ تعلقات معمول پر لا سکے گا؟ ، صدر ٹرمپ نے اس سوال کا جواب دینے سے گریز کیا۔انہوں نے صرف اتنا کہا کہ فی الحال ان کی توجہ غزہ امن معاہدے کی کامیابی پر مرکوز ہے۔
“غزہ کا معاہدہ دنیا کا سب سے بڑا امن معاہدہ ہے”
نوبل امن انعام کے ممکنہ حصول سے متعلق سوال پر ٹرمپ نے کہاکہ > “اقتدار میں واپسی کے بعد میں نے دنیا بھر کے تنازعات کے حل کے لیے آٹھ معاہدے کیے۔ ان میں سب سے بڑا اور اہم معاہدہ غزہ کا جنگ بندی معاہدہ ہے۔”انہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ نہ صرف غزہ میں جنگ کے خاتمے کا باعث بنے گا بلکہ مشرقِ وسطیٰ کے مستقبل کو بھی نئی سمت دے گا۔
امریکی میڈیا کے مطابق صدر ٹرمپ غزہ امن معاہدے کے بعد اسرائیل کا دورہ کریں گے ، جہاں وہ ممکنہ طور پر اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسٹ) سے خطاب بھی کریں گے۔ان کے دورے کا مقصد معاہدے کے عمل درآمد کی نگرانی اور علاقائی قیادت سے ملاقاتیں ہیں۔
دوسری جانب حماس رہنما خلیل الحیہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ > “جنگ بندی معاہدے کے تحت تمام فلسطینی خواتین اور بچوں کو جو اسرائیلی قید میں ہیں، رہا کیا جائے گا۔”انہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ فلسطینی عوام کی جدوجہد کے نتیجے میں ممکن ہوا ہے اور امید ظاہر کی کہ یہ پہلا قدم مستقل امن کی طرف جائے گا ۔
غزہ میں دو سال سے جاری جنگ میں ہزاروں فلسطینی جاں بحق ہوئے، جبکہ درجنوں اسرائیلی شہری حماس کے قبضے میں یرغمال بنے ہوئے تھے۔گزشتہ روز اسرائیلی کابینہ نے جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کی منظوری دی جس کے بعد اب امریکی ثالثی میں امن عمل کا نیا مرحلہ شروع ہو گیا ہے۔