کینیڈا (ویب نیوز) جنگلات میں لگنے والی آگ کے بعد دوبارہ شجرکاری کا عمل نہایت پیچیدہ، مہنگا اور وقت طلب ہوتا ہے، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ انہی راکھ زدہ زمینوں میں نئے مواقع بھی چھپے ہوتے ہیں۔
بعض اوقات آگ کے بعد فوری طور پر شجرکاری ممکن ہو جاتی ہے، لیکن اکثر صورتوں میں اس عمل میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔گزشتہ سال البرٹا کے جیسپر نیشنل پارک میں لگنے والی 33 ہزار ہیکٹر رقبے پر مشتمل آگ کو ستمبر 2023 میں قابو میں لیا گیا۔ اسی دوران پارک کے عملے نے فوری طور پر درخت لگانے کا عمل شروع کیا۔ یہاں ڈگلس فر (Douglas Fir) کے درخت لگائے گئے، جو دیگر کونفیرز کے مقابلے میں آگ کے خلاف زیادہ مزاحمت رکھتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس غیر معمولی تیزی کی وجہ یہ تھی کہ پہلے سے تحقیقی سروے مکمل تھے اور نرسری میں پودے موجود تھے، ورنہ اکثر مقامات پر یہ پودے تیار کرنے میں ہی کئی سال لگ جاتے ہیں۔
ماہرین نے بتایا کہ جلے ہوئے علاقوں میں سب سے پہلے وہ مقامات ترجیح دیے گئے جو ندی نالوں کے قریب تھے، کٹاؤ کے خطرے والے ڈھلوان یا سیاحوں کی گزرگاہیں تھیں۔ تاہم خشک سالی اور آتش زدہ علاقوں میں پیدا ہونے والے کیڑوں کے خطرے کے باعث شجرکاری عارضی طور پر روک دی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آگ کے باوجود کچھ حصوں میں جڑوں اور مٹی کا نظام محفوظ رہا جس کی بدولت قدرتی سبزہ دوبارہ اُگنا شروع ہوگیا۔
یہ سال پہلے ہی کینیڈا کی تاریخ کا دوسرا بدترین جنگلاتی آگ کا سال ہے، جس میں اب تک 73 لاکھ ہیکٹر رقبہ جل چکا ہے، جو پورے نیو برنسوک کے سائز کے برابر ہے۔ اس سے قبل 2023 کو کینیڈا کی تاریخ کا بدترین جنگلاتی آگ کا سال قرار دیا گیا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی موسمیاتی تبدیلی کے باعث مستقبل میں جنگلات وہ نہیں ہوں گے جو پہلے تھے، بلکہ نئے جنگلات مختلف، زیادہ مضبوط اور لچکدار ہو سکتے ہیں۔
شجرکاری کے عمل کے بارے میں جنگلاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی علاقے میں آگ کے بعد فوری طور پر شجرکاری شروع کرنا ہمیشہ درست نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر، اونٹاریو کے شمال مغربی علاقے اوگوکی فاریسٹ میں 2023 کی آگ نے 40 ہزار ہیکٹر رقبہ جلا دیا تھا جو ہرن کی بقا کے لیے نہایت اہم تھا۔ یہاں شجرکاری کا آغاز اب جا کر ہو رہا ہے، اور اب تک 7 لاکھ سے زائد نئے پودے لگائے جا چکے ہیں۔
جنگلاتی ادارہ کے سی ای او جیس کاکنیویسیئس کے مطابق، آگ کے بعد پہلے کئی سالوں تک زمین کا سروے اور مطالعہ کیا جاتا ہے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ کہاں قدرتی طور پر سبزہ اُگ رہا ہے، کہاں شجرکاری زیادہ مؤثر ہوگی اور کون سی اقسام کے درخت لگائے جائیں۔ ان کے
مطابق بیج اکٹھا کرنا اور انہیں نرسری میں دو سال تک پرورش دینا پڑتا ہے تاکہ پودے لگانے کے قابل ہو سکیں۔ اگر لاکھوں درخت درکار ہوں تو یہ فوری طور پر میسر نہیں ہوتے کیونکہ بیج ایک قیمتی اور کمیاب وسیلہ ہے جس پر خود موسمیاتی تبدیلی کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ماہرین کے مطابق بیج سے لے کر درخت کے زندہ رہنے تک کا عمل 5 سے 8 سال پر محیط ہوتا ہے۔ شجرکاری کے بعد بھی ماہرین کو ایک، دو اور پانچ سال بعد دوبارہ جانچ پڑتال کرنی پڑتی ہے تاکہ دیکھا جا سکے کہ نئے درخت کس حد تک کامیابی سے نشوونما پا رہے ہیں۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ جنگلات کی بحالی ایک طویل المدتی اور صبر آزما عمل ہے، مگر اگر اس میں سائنسی منصوبہ بندی اور درست ترجیحات شامل ہوں تو یہ نہ صرف ماحولیاتی توازن کو بحال کر سکتا ہے بلکہ مستقبل میں زیادہ پائیدار اور مزاحمتی جنگلات اُگانے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔