اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز )سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں لارجر بینچ نے پنجاب اور کے پی میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواستوں کی سماعت کی، جس میں عدالت نے فریقین سے پرامن رہنے کی یقین دہانی مانگی۔
تفصیل کے مطابق چیف جسٹس پاکستان کی جانب سے تشکیل دیا گیا 5 رکنی لارجر بینچ پنجاب اور کے پی کے انتخابات کے معاملے کی سماعت کر رہا ہے۔ بنچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی شامل ہیں۔
الیکشن کمیشن کی قانونی ٹیم، ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان، تحریک انصاف کے وکلا علی ظفر اور بیرسٹر گوہر عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطا بندیال نے پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر سے سوال کیا کہ کیا آپ کے مطابق الیکشن کی تاریخ آگے بڑھانا درست نہیں؟ بتائیں الیکشن کی تاریخ بڑھانا کیسا غلط ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ صدر نے عدالتی حکم پر 30 اپریل کی تاریخ مقرر کی، گورنر کے پی نے حکم عدولی کرتے ہوئے تاریخ طے نہیں کی، الیکشن کمیشن نے پنجاب میں انتخابی شیڈول جاری کیا
علی ظفر نے کہا کہ عدالتی حکم کی تین بار خلاف ورزی کی گئی، الیکشن کمیشن خود انتخابات کی تاریخ نہیں دے سکتا، دوسری خلاف ورزی 90 دن بعد الیکشن کی تاریخ دینا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نگران حکومت کا مقصد انتخابات ہیں جو 90 دن میں کرائے جائیں، یہ نہیں ہو سکتا کہ انتخابات 90 دن سے زیادہ پانچ ماہ کے لیے ملتوی ہوں۔ ، وزارت داخلہ اور دفاع نے سیکیورٹی اہلکار فراہم کرنے سے انکار کردیا، انتظامیہ کے عدم تعاون پر انتخابات ملتوی کرنے کی آئین اجازت نہیں دیتا، کیا اکتوبر میں معاملات ٹھیک ہونے کی ضمانت ہے؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ عدالت سے کیا چاہتے ہیں؟ اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ آئین اور اس کے حکم پر عملدرآمد کرے، جسٹس جمال نے کہا کہ عدالتی حکم پر عملدرآمد ہائی کورٹ کا کام ہے۔
علی ظفر نے کہا کہ فنڈز کی کمی کی وجہ مان لی جائے تو الیکشن کبھی نہیں ہوں گے، مسئلہ صرف عدالتی احکامات کا نہیں، دو صوبوں کے الیکشن کا معاملہ ایک ہائی کورٹ نہیں سن سکتی، سپریم کورٹ پہلے ہی سن چکی ہے۔ اپنے اختیار کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ سپریم کورٹ کا اختیار ابھی ختم نہیں ہوا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ سپریم کورٹ کے حکم کی راہ میں رکاوٹ ہے، سپریم کورٹ ہی بہتر فیصلہ کر سکتی ہے کہ احکامات کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں۔ اس پر علی ظفر نے کہا کہ یہ پنجاب اور کے پی کے کے لوگوں کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا موقف تھا کہ وہ پولنگ کی تاریخ طے نہیں کر سکتا، اب الیکشن کمیشن نے بھی پولنگ کی نئی تاریخ دے دی ہے، کیا یہ الیکشن کمیشن کے موقف میں تضاد نہیں؟
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم نامے پر پانچوں ججز کے دستخط ہیں، ایسا نہیں ہے کہ سپریم کورٹ کے دو فیصلے ہوں، فیصلوں میں اختلافی نوٹ ہونا معمول کی بات ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے آرٹیکل 254 کا سہارا لیا، کیا ایسی صورت میں آرٹیکل 254 کا سہارا لیا جا سکتا ہے؟
وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ آرٹیکل 254 کام کرنے کے بعد لگایا جا سکتا ہے، کام مکمل ہونے سے پہلے نہیں کیا جا سکتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 254 آئین میں دی گئی مدت کو تبدیل نہیں کر سکتا، آرٹیکل 254 آئین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیتا۔
بعد ازاں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات کیس میں فریقین کو نوٹس جاری کر دیئے۔ سپریم کورٹ نے تحریک انصاف اور حکومت سے یقین دہانی مانگ لی۔