اردو ورلڈکینیڈا ( ویب نیو ز ) کینیڈا کے صوبے البرٹا کی ایک خوبصورت صبح تھی، ہوا میں ہلکی ٹھنڈک اور درختوں کے پتوں پر شبنم کے قطرے چمک رہے تھے۔
پرندے اپنی سریلی آواز میں گنگنا رہے تھے اور بچے پارک میں کھیلنے کے لیے اپنے بستوں سے گیندیں اور پتنگیں نکال رہے تھے۔ اسی ماحول میں اچانک ایک ایسی چیز دکھائی دی جس نے سب کو چونکا دیا۔ ایک ننھی سی گلہری درخت کی شاخوں پر اچھلتی کودتی نظر آئی لیکن یہ کوئی عام گلہری نہیں تھی، کیونکہ اس کی کھال بھوری، سیاہ یا سفید نہیں بلکہ ہلکے گلابی رنگ کی تھی، جیسے کسی نے اسے رنگین برش سے پینٹ کر دیا ہو یا جیسے وہ پریوں کی کہانیوں سے نکل کر سیدھی حقیقت کی دنیا میں آگئی ہو۔
بچوں نے پہلے تو اپنی آنکھیں ملیں، کچھ نے سوچا شاید روشنی کا دھوکہ ہے، مگر جب وہ گلہری قریب آئی اور اپنی لمبی دم کو لہراتے ہوئے زمین پر اتر کر اخروٹ اٹھانے لگی تو سب کے منہ حیرت سے کھلے کے کھلے رہ گئے۔ سب نے زور سے چیخ کر کہا: “واہ! یہ تو پنک گلہری ہے!” کچھ بچے ہنسنے لگے، کچھ خوشی سے تالیاں بجانے لگے اور کچھ نے فوراً اپنے موبائل فون نکال کر ویڈیو بنانی شروع کر دی۔ تھوڑی ہی دیر میں یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر ڈال دی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں وائرل ہوگئی، لوگ اپنے گھروں میں بیٹھے کینیڈا کی اس جادوئی گلہری کو دیکھ کر حیرت کا اظہار کرنے لگے۔
اس گلہری کو دیکھنے کے لیے لوگ دور دور سے آنے لگے۔ پارک جو عام دنوں میں صرف چند بچوں اور فیملیز سے آباد رہتا تھا، اب سیاحوں سے بھرنے لگا۔ بچے اس کے پیچھے بھاگتے، کچھ اسے بسکٹ یا اخروٹ پھینک کر کھلانے کی کوشش کرتے، مگر یہ گلہری بڑی نخرے والی تھی۔ کبھی درخت پر دوڑ جاتی، کبھی جھاڑیوں کے پیچھے چھپ جاتی اور پھر اچانک سامنے آکر سب کو ہنسنے پر مجبور کر دیتی۔ لوگ اسے پیار سے “پنک نٹ” کہنے لگے، کیونکہ وہ اکثر اخروٹ کھاتی اور اپنے گلابی بدن کے ساتھ بڑی ہی نرالی اور خوبصورت لگتی۔ شہر میں چرچا ہونے لگا کہ قدرت نے البرٹا کو ایک ایسا نایاب تحفہ دیا ہے جو شاید دنیا میں اور کہیں نہیں۔ کچھ لوگ اسے خوش قسمتی کی علامت سمجھنے لگے، کچھ اسے پریوں کے وجود کی دلیل قرار دینے لگے اور کچھ نے کہا یہ تو بچوں کے خوابوں کی گلہری ہے۔
دوسری طرف سائنسدان اور ماہرینِ حیوانیات بھی حیران رہ گئے۔ انہوں نے تحقیق شروع کی کہ آخر یہ گلہری عام گلہریوں سے اتنی مختلف کیوں ہے۔ البرٹا یونیورسٹی کے پروفیسر مارک ہنری نے میڈیا کو بتایا کہ یہ ایک غیر معمولی مظہر ہے جسے البتینزم کہتے ہیں۔ البتینزم میں جانوروں کے جسم میں رنگ پیدا کرنے والا مادہ کم یا ختم ہو جاتا ہے، لیکن اس گلہری میں ایسا لگ رہا تھا کہ سفید اور اصل رنگ کے ملاپ سے ایک انوکھا گلابی سایہ بن گیا ہے۔ پروفیسر ہنری کا کہنا تھا: “ہم نے سفید گلہریاں ضرور دیکھی ہیں، کالی گلہریاں بھی عام ہیں، مگر گلابی گلہری پہلی بار دیکھنے میں آئی ہے، اور یہ واقعی قدرت کی ایک حیرت انگیز تخلیق ہے۔” ان کے اس بیان کے بعد یہ گلہری صرف کینیڈا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے ماہرین کی توجہ کا مرکز بن گئی۔
پنک نٹ کی شہرت بڑھنے لگی تو میڈیا کے نمائندے بھی پارک میں آنے لگے۔ کیمرے نصب کیے گئے تاکہ اس گلہری کی روز مرہ کی عادات کا مشاہدہ کیا جا سکے۔ لوگ حیران تھے کہ یہ گلہری نہ صرف خوبصورت ہے بلکہ بڑی چالاک اور ذہین بھی۔ ایک دن ایک فوٹوگرافر نے نوٹ کیا کہ جب بچے اس کے قریب زیادہ شور مچاتے تو وہ درخت کی سب سے اونچی شاخ پر جا کر بیٹھ جاتی اور وہاں سے اپنی دم ہلاتے ہوئے ایسے جھانکتی جیسے کہہ رہی ہو: “پکڑ سکتے ہو تو پکڑ لو!” یہ مناظر دیکھ کر سب قہقہے لگاتے اور گلہری بھی جیسے خوش ہو کر مزید کھیل دکھاتی۔
کچھ دن بعد یہ خبر اخباروں کے پہلے صفحے کی زینت بنی: **“کینیڈا میں گلابی گلہری کی دریافت — دنیا حیران”**۔ مختلف ٹی وی چینلز نے خصوصی پروگرام کیے اور بچے تو خاص طور پر ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر اس جادوئی گلہری کے قصے سنتے۔ کچھ ماہرین کا خیال تھا کہ یہ قدرتی رنگت کا کمال ہے، کچھ نے کہا شاید کسی جینیاتی تبدیلی کی وجہ سے ایسا ہوا، مگر عام لوگ تو بس یہی کہتے رہے کہ یہ قدرت کی طرف سے خوشیوں کا تحفہ ہے۔
اب پارک میں بچوں کے کھیلنے کا انداز بھی بدل گیا تھا۔ پہلے جہاں وہ بس جھولوں اور سلائیڈز پر کھیلتے تھے، اب وہ سب سے زیادہ مزہ پنک نٹ کو دیکھنے میں لیتے۔ کچھ بچے تو اس کی نقل بھی کرنے لگے، وہ درختوں پر چڑھنے کی کوشش کرتے اور ایک دوسرے کو کہتے: “دیکھو! میں بھی گلابی گلہری ہوں۔” والدین مسکراتے اور اپنے بچوں کی یہ معصوم خوشیاں دیکھ کر دل ہی دل میں شکر ادا کرتے کہ قدرت نے ایک معمولی سی گلہری کے ذریعے پورے شہر میں خوشی اور مسکراہٹ بکھیر دی ہے۔
پنک نٹ اب صرف ایک جانور نہیں رہا تھا بلکہ ایک کہانی بن چکا تھا، ایک ایسی کہانی جو ہر بچے کے دل میں اتر گئی تھی۔ کچھ بچوں نے اسکول میں اس پر مضامین لکھے، کچھ نے تصویریں بنائیں اور کچھ نے کہانیاں تخلیق کیں کہ کیسے یہ گلہری رات کو پریوں کے ساتھ چاندنی میں کھیلتی ہے اور دن کے وقت زمین پر آ کر بچوں سے ملتی ہے۔
وقت گزرتا گیا اور پنک نٹ کی شہرت کم ہونے کے بجائے مزید بڑھتی گئی۔ شہر کے میئر نے اعلان کیا کہ پارک کے ایک حصے کو “پنک نٹ کارنر” کے نام سے منسوب کیا جائے گا تاکہ آنے والے سیاح اور بچے وہاں بیٹھ کر اس گلہری کی یاد کو تازہ رکھ سکیں۔ کچھ لوگوں نے تو یادگاری کھلونے اور کہانیاں بھی بیچنا شروع کر دیں، جن پر اس گلہری کی تصویر بنی ہوتی۔ اس طرح یہ گلہری مقامی معیشت کے لیے بھی ایک چھوٹا سا سہارا بن گئی۔
لیکن سب سے زیادہ خوشی بچوں کو تھی، کیونکہ ان کے لیے یہ گلہری ایک ہیرو کی طرح تھی۔ وہ جانتے تھے کہ یہ ایک عام جانور ہے، لیکن اس کا رنگ، اس کی شرارتیں اور اس کا انداز اسے خاص بنا دیتا ہے۔ بچوں نے سیکھا کہ ہر جاندار اپنی انفرادیت میں خوبصورت ہے، چاہے وہ کسی بھی رنگ یا شکل کا ہو۔یوں ایک چھوٹی سی گلہری نے نہ صرف البرٹا کے لوگوں کو حیران کیا بلکہ دنیا بھر کو یہ پیغام دیا کہ قدرت کے خزانے لا محدود ہیں اور کبھی کبھی وہ ہمیں ایسی انوکھی جھلک دکھا دیتی ہے جو ہماری آنکھوں اور دلوں کو ہمیشہ کے لیے یاد رہ جاتی ہے۔