اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) فلسطینی علاقے غزہ میں انسانی بحران مزید شدت اختیار کر گیا ہے
گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 7 افراد غذائی قلت کے باعث جاں بحق ہو گئے ہیں۔ اس طرح اسرائیل حماس جنگ کے آغاز (2023) سے اب تک قحط اور غذائی قلت کی وجہ سے ہلاک ہونے والے افراد کی مجموعی تعداد 154 تک جا پہنچی ہے، جن میں 89 بچے بھی شامل ہیں۔
یہ معلومات حماس کے زیرِ انتظام وزارتِ صحتط نے جاری کی ہیں، جس کے مطابق غزہ میں غذائی قلت اور بنیادی سہولیات کی شدید کمی کے باعث صورتحال انتہائی سنگین ہو چکی ہے۔گزشتہ روز اقوامِ متحدہ کے ساتھ کام کرنے والے عالمی غذائی سلامتی کے ماہرین نے خبردار کیا کہ غزہ میں قحط کی بدترین ممکنہ صورت حال اب حقیقت میں بدل چکی ہے۔ ان ماہرین نے کہا کہ اگر فوری اور مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو اموات میں خطرناک حد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی حکام کا دعویٰ ہے کہ وہ غزہ میں امدادی سامان کی رسائی پر کوئی پابندی عائد نہیں کر رہے۔ تاہم اسرائیل کا یہ مؤقف اقوامِ متحدہ، یورپی اتحادی ممالک اور غزہ میں سرگرم امدادی تنظیموں نے مسترد کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں، اور امدادی سامان کی فراہمی مسلسل رکاوٹوں کا شکار ہے۔
بین الاقوامی تنظیموں نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ فوری طور پر مداخلت کرے اور غزہ میں قحط سے بچاؤ کے لیے ہنگامی بنیادوں پر امداد فراہم کرے، ورنہ انسانی جانوں کا مزید ضیاع ناگزیر ہو جائے گا۔غزہ کے شہریوں کو نہ صرف خوراک بلکہ پینے کے صاف پانی، طبی سہولیات، اور بنیادی ضروریات زندگی تک بھی رسائی حاصل نہیں، جس کے باعث لاکھوں افراد خطرے سے دوچار ہیں۔اقوامِ متحدہ، ریڈ کراس، ورلڈ فوڈ پروگرام اور دیگر بین الاقوامی ادارے اس بات پر متفق ہیں کہ اگر فوری انسانی راہداری نہ کھولی گئی تو آنے والے دنوں میں غزہ دنیا کے بدترین قحط زدہ علاقوں میں شامل ہو سکتا ہے۔