اردوورلڈکینیڈا( ویب نیوز)خوراک کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے باعث ایک نئی سروے رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ البرٹا کے تقریباً ایک چوتھائی شہریوں کو گروسری خریدنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ یہ سروے نیکسٹ ڈور (Nextdoor) اور اینگس ریڈ (Angus Reid) نے مشترکہ طور پر کیا ہے۔
یہ صورتحال ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اسٹیٹسٹکس کینیڈا کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق گروسری کی قیمتوں میں افراطِ زر 2023 کے بعد بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، جبکہ فوڈ بینکس پر انحصار کرنے والوں کی تعداد تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔
کیلگری کی رہائشی الیخاندرا کا کہنا ہےمیرے لیے اپنا کھانا خریدنا ہی مہنگا ہو گیا ہے، اس لیے شاید میں عطیہ دے سکوں، مگر پہلے کی طرح یا اپنی مرضی کے مطابق نہیں۔
ایک اور کیلگری کی رہائشی، چارمین، نے کہاگھر چلانے کے لیے ضروری سادہ چیزیں خریدنا بھی اب یقیناً بہت مہنگا ہو چکا ہے۔سروے کے مطابق اس تعطیلاتی سیزن میں صرف 20 فیصد البرٹنز نے فوڈ بینک کو عطیہ دیا، جس کے نتیجے میں کیلگری فوڈ بینک کو شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ اس سال مدد کے طلبگار افراد کی تعداد ریکارڈ سطح تک پہنچ گئی ہے، مگر عطیات ضرورت کے مقابلے میں کہیں کم ہیں۔
کیلگری فوڈ بینک کی چیف ایگزیکٹو آفیسر میلیسا فروم نے بتایاہم اس وقت ایک مشکل تین طرفہ مسئلے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایک طرف ضرورت مند افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے کیونکہ لوگ اپنے خاندان کو کھانا کھلانے کے قابل نہیں رہے، دوسری طرف کمیونٹی کی جانب سے عطیات کم ہو رہے ہیں کیونکہ لوگ خود بھی مالی دباؤ کا شکار ہیں، اور تیسری جانب ہمارے اپنے اخراجات بڑھ رہے ہیں کیونکہ ہم سالانہ تقریباً ایک کروڑ ڈالر کا کھانا خریدتے ہیں۔
کیلگری فوڈ بینک، جو مکمل طور پر کمیونٹی عطیات پر انحصار کرتا ہے، نے بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے حال ہی میں ڈاؤن ٹاؤن میں ایک نیا مرکز کھولا ہے۔ تاہم، ملک بھر میں خوراک کی عدم تحفظ کے خاتمے کے لیے سرگرم فلاحی ادارے اور پالیسی ماہرین کا کہنا ہے کہ کینیڈین شہریوں کو بھوکا نہ رہنے دینا عام عوام کی ذمہ داری نہیں ہونی چاہیے۔کینیڈا جیسے امیر ملک میں فوڈ بینکس کا وجود ہی نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارے پاس خوراک کی کمی نہیں،”
میٹ نوبل، تنظیم Put Food Banks Out of Business کے منتظم، نے کہا۔یہ دراصل حکومتی ناکامی ہے، اور فوڈ بینکس حکومت کی کوتاہیوں کا بوجھ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ گروپ کم از کم قابلِ گزر بسر بنیادی آمدن (Guaranteed Livable Basic Income) کے حق میں آواز اٹھا رہا ہے، جس کے لیے اس وقت اوٹاوا میں سینیٹ اور ہاؤس آف کامنز میں ایک بل زیرِ غور ہے تاکہ قومی فریم ورک تیار کیا جا سکے۔
میٹ نوبل کا کہنا تھاکم از کم ہمیں لوگوں کو غربت کی لکیر سے نیچے گرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ میں ہمیشہ کہتا ہوں، اگر غربت کی لکیر لوگوں کو غربت سے بچا ہی نہیں سکتی تو اس کا فائدہ کیا ہے؟”
ادھر کیلگری فوڈ بینک کی سی ای او میلیسا فروم کے مطابق، مدد کے لیے آنے والا سب سے تیزی سے بڑھتا ہوا طبقہ ورکنگ پوور (یعنی کام کرنے کے باوجود غریب افراد) پر مشتمل ہے۔
انہوں نے کہاہمیں غربت کی تمام سطحوں پر غور کرنا چاہیے، لیکن پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ تینوں سطحوں کی حکومتیں ان لوگوں پر توجہ دیں جو محنت کر رہے ہیں اور سب کچھ درست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
“حکومتوں کو خود سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ ہم ان لوگوں کو ان کی کمائی ہوئی رقم ان کی جیب میں رکھنے میں کیسے مدد دے سکتے ہیں؟ ہماری ٹیکسیشن پالیسی کیا ہے؟ مارکیٹ کنٹرولز کہاں ناکام ہو رہے ہیں کہ طلب اور رسد میں اتنا بڑا عدم توازن پیدا ہو چکا ہے؟انہوں نے مزید کہا کہ بھوک کوئی موسمی مسئلہ نہیں، اور نئے سال میں بھی مدد کی ضرورت برقرار رہے گی۔