اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) اسرائیل کی سیاسی و سیکیورٹی کابینہ نے ایک نہایت متنازع اور خطرناک منصوبے کی منظوری دے دی ہے
غزہ شہر پر مکمل فوجی کنٹرول حاصل کرنے کی تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں۔ اس اقدام نے خطے میں ایک بار پھر جنگ کے شعلے بھڑکنے کا خدشہ پیدا کر دیا ہے، جب کہ فلسطینی تنظیم حماس نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف **شدید مزاحمت کا اعلان کر دیا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے امریکی نشریاتی ادارے کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اسرائیل پورے غزہ پر فوجی کنٹرول چاہتا ہے تاکہ حماس کو "مکمل طور پر ختم” کیا جا سکے۔ اسی بیان کے چند گھنٹوں بعد اسرائیلی سیکیورٹی کابینہ نے باقاعدہ اس منصوبے کی منظوری دے دی۔
وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ "اسرائیلی فوج غزہ شہر پر کنٹرول حاصل کرنے کی تیاری کرے گی، جبکہ جنگی علاقوں سے باہر موجود فلسطینی شہریوں کو انسانی امداد فراہم کی جائے گی۔”
غزہ شہر نہ صرف شمالی غزہ کی سب سے بڑی شہری آبادی ہے بلکہ سیاسی، عسکری اور علامتی طور پر فلسطینی مزاحمت کا مرکز بھی سمجھا جاتا ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں کسی بھی متبادل حکمت عملی سے نہ تو حماس کو ختم کیا جا سکتا ہے، اور نہ ہی اسرائیلی یرغمالیوں کو بازیاب کرایا جا سکتا ہے۔سرکاری ذرائع کے مطابق یہ قرارداد اب مکمل کابینہ سے منظوری کی منتظر ہے، جو امکان ہے کہ اتوا تک دے دی جائے گی۔
اسرائیلی فیصلے کے ردعمل فلسطینی تنظیم حماس نے شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ "یہ اقدام غزہ میں نسل کشی، جبری بے دخلی اور قبضے کا تسلسل ہے۔ نیتن یاہو اپنے ذاتی سیاسی فائدے کے لیے نہ صرف غزہ کو تباہ کرنا چاہتے ہیں بلکہ اسرائیلی یرغمالیوں کی زندگیوں سے بھی کھیل رہے ہیں۔” حماس نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیلی قبضے کی کسی بھی کوشش کا **شدید اور بھرپور عسکری جواب** دیا جائے گا، اور فلسطینی عوام کو تنہا نہیں چھوڑا جائے گا۔
اسرائیلی اقدام نے پہلے سے جلتے ہوئے مشرقِ وسطیٰ میں نئی آگ لگا دی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ غزہ پر مکمل فوجی قبضے کی صورت میں
شہری ہلاکتوں میں شدید اضافہ ہو سکتا ہے،* انسانی بحران مزید گہرا ہو جائے گا،* علاقائی قوتیں بھی اس تنازع میں مزید کھل کر شامل ہو سکتی ہیں،فی الحال عالمی برادری کی طرف سے اس منصوبے پر کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا، تاہم انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اقوام متحدہ کے عہدیداران پہلے ہی غزہ میں جاری حملوں "جنگی جرائم کے زمرے میں قرار دے چکے ہیں