اردوورلڈکینیڈا( ویب نیوز)غزہ پٹی کے عوام نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ امن منصوبے پر شدید شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے اور کئی شہریوں نے اسے محض ایک "تماشہ” قرار دیا۔
جنوبی غزہ کے علاقے المواسی میں مقیم 39 سالہ ابراہیم جودہ نے اپنے عارضی شیلٹر میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبہ حقیقت سے دور اور ناقابلِ عمل ہے۔ رفح شہر سے تعلق رکھنے والے کمپیوٹر پروگرامر نے کہا کہ اس منصوبے کی شرائط ایسی ہیں جنہیں امریکا اور اسرائیل اچھی طرح جانتے ہیں کہ حماس کبھی قبول نہیں کرے گا، اس لیے نتیجہ یہی نکلے گا کہ جنگ اور مصیبتیں جاری رہیں گی۔
یہ ردعمل اس وقت سامنے آیا جب صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو کے ہمراہ 20 نکاتی امن فارمولا پیش کیا، جس میں واضح طور پر کہا گیا کہ حماس اور دیگر فلسطینی گروہ کسی بھی صورت میں غزہ کی حکمرانی کا حصہ نہیں ہوں گے۔
52 سالہ ابو مازن نصر، جو دیر البلح میں بے گھر ہیں، نے بھی منصوبے پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ فلسطینی دھڑوں کو دھوکا دے کر اسرائیلی قیدیوں کو رہا کروایا جائے، مگر اس کے بدلے میں حقیقی امن نہیں ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر قیدیوں کو بغیر کسی سرکاری ضمانت کے حوالے کر دیا جائے تو یہ ایک اور دھوکا ہوگا۔
کچھ شہری پھر بھی مثبت امید رکھتے ہیں۔ خان یونس کے 31 سالہ دکاندار اناس صرور نے کہا کہ حالانکہ ہم سب کچھ کھو چکے ہیں، مگر میں یقین رکھتا ہوں کہ جنگ ہمیشہ نہیں رہتی۔ ان کے مطابق، اگر یہ منصوبہ کامیاب ہو جائے تو شاید یہ ہمارے زخم بھرنے کا ذریعہ بن سکے۔
اس کے برعکس 29 سالہ خاتون نجویٰ مسلم نے مایوسی کا اظہار کیا۔ وسطی غزہ میں پناہ لینے والی اس خاتون نے کہا کہ نہ صرف انہوں نے امن منصوبے پر اعتماد کھو دیا ہے بلکہ زندگی پر بھی ان کا یقین ٹوٹ چکا ہے۔ ان کے مطابق اگر واقعی جنگ روکنے کی نیت ہوتی تو اتنی دیر نہ کی جاتی۔
تقریباً دو سال سے جاری بمباری اور بار بار ناکام ہونے والی جنگ بندیوں کے بعد اب وہاں ہر نئے اعلان کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ غزہ شہر کے 47 سالہ محمد البلتاجی نے کہا کہ یہ ہمیشہ ایک کھیل کی طرح ہوتا ہے، کبھی اسرائیل مان لیتا ہے اور حماس انکار کر دیتی ہے، یا اس کے برعکس۔ لیکن اس سب کا اصل خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔