اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز )غزہ کی سرزمین ایک بار پھر لہو میں نہائی ہوئی ہے، اور دنیا کی خاموشی ایک بار پھر مجرم دکھائی دے رہی ہے۔
فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے بین الاقوامی برادری سے زور دار مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل پر دباؤ ڈالے تاکہ وہ جنگ بندی کے معاہدے کی پاسداری کرے۔ حماس کے ترجمان حازم قاسم کے مطابق، جنگ بندی کے بعد بھی اسرائیلی جارحیت جاری ہے، جس کے نتیجے میں اب تک 90 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
یہ صورتحال نہ صرف انسانی المیے کی عکاسی کرتی ہے بلکہ عالمی انصاف کے نظام پر بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اسرائیل کی جانب سے رفح بارڈر کی بندش او امدادی سامان کی ترسیل میں رکاوٹیں واضح طور پر معاہدے کی خلاف ورزی ہیں۔ ایسے میں حماس کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اگر عالمی قوتیں واقعی امن چاہتی ہیں تو انہیں محض بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ حماس نے مصر، قطر اور ترکی کے تعاون سے امن معاہدے کے پہلے مرحلے پر عمل کرتے ہوئے زندہ یرغمالیوں اور چند لاشوں کی حوالگی مکمل کر دی ہے۔ اس کے برعکس، اسرائیلی حکومت کی جانب سے مسلسل خلاف ورزیاں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ تل ابیب ابھی بھی امن کے بجائے عسکری تسلط کے ایجنڈے پر گامزن ہے۔
حماس نے امریکہ کے اس مؤقف کو سراہا ہے جس میں مقبوضہ مغربی کنارے کے انضمام کی مخالفت کی گئی ہے۔ اگر واشنگٹن واقعی مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن چاہتا ہے تو اسے اسرائیل پر اثر و رسوخ استعمال کر کے اسے معاہدے کی پاسداری پر مجبور کرنا ہوگا۔عالمی برادری کو یہ سمجھنا ہوگا کہ امن صرف کاغذی معاہدوں سے نہیں بلکہ عملی انصاف سے جنم لیتا ہے اگر اسرائیل کو ہر خلاف ورزی پر چھوٹ دی جاتی رہی تو امن کے کسی بھی معاہدے کی حیثیت محض ایک مذاق سے زیادہ نہیں ہوگی۔فلسطینیوں کا خون اب مزید کسی سفارتی تاخیر کا متحمل نہیں ہو سکتا — اب وقت ہے کہ دنیا دوٹوک مؤقف اپنائے: **یا تو امن کے ساتھ کھڑی ہو یا ظلم کے ساتھ۔