اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) امریکہ کی معروف تعلیمی درسگاہ ہارورڈ یونیورسٹی نے بالآخر سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی زیر قیادت موجودہ انتظامیہ کے ساتھ جاری تنازع کو ختم کرنے کے لیے 500 ملین ڈالر وقف کرنے کااعلان کر دیا ہے۔
یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کچھ ہی مہینے پہلے ٹرمپ انتظامیہ نے ہارورڈ پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے دی جانے والی وفاقی امداد روکنے کی دھمکی دی تھی۔
فنڈنگ کی تلوار اور پالیسی دباؤ
رواں سال اپریل میں امریکی محکمہ تعلیم نے ہارورڈ یونیورسٹی پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ "سیاسی تعصب، غیر شفاف پالیسیوں اور مخصوص نظریاتی ایجنڈے” کو فروغ دے رہی ہے۔ اس کے بعد محکمہ تعلیم نے خبردار کیا تھا کہ اگر یونیورسٹی نے اپنی پالیسیوں میں اصلاحات نہ کیں تو اسے دی جانے والی **2.2 ارب ڈالر کی وفاقی امداد** بند کر دی جائے گی۔ذرائع کے مطابق، ہارورڈ انتظامیہ نے سیاسی دباؤ اور مالی خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹرمپ حکومت کے ساتھ مفاہمت کی راہ اختیار کی۔ اگرچہ 500 ملین ڈالر کی ادائیگی کا اعلان ہو چکا ہے، لیکن مالیاتی شرائط اور قانونی معاہدے پر بات چیت تاحال جاری ہے۔
کولمبیا یونیورسٹی کی خفیہ ڈیل کے بعد نئی پیش رفت
اس سے پہلے کولمبیا یونیورسٹی نے بھی حکومتی فنڈنگ بچانے کے لیے ایک **خفیہ معاہدہ** کیا تھا، جس پر کافی تنقید ہوئی تھی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ان معاہدوں سے اعلیٰ تعلیمی ادارے اپنی خودمختاری کھو رہے ہیں اور حکومت کے نظریاتی ایجنڈے کے سامنے جھکنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
دانشوروں اور طلبہ کی تشویش
ہارورڈ کے اس اقدام پر اکیڈمیا اور طلبہ تنظیموں میں بھی تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ کئی اساتذہ اور طلبہ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس قسم کی مالی مفاہمتیں تعلیمی اداروں کی **آزادی، تحقیقی غیرجانبداری** اور اظہارِ رائے کی آزادی پر منفی اثر ڈال سکتی ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ کی "ریفارمز” مہم
ٹرمپ حکومت طویل عرصے سے امریکی جامعات پر تنقید کرتی آ رہی ہے، خصوصاً ان اداروں پر جو مبینہ طور پر لبرل نظریات کو فروغ دیتے ہیں۔ موجودہ پیش رفت کو ٹرمپ انتظامیہ کی "تعلیمی اصلاحات” کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے، جس کے تحت حکومت کا مقصد اعلیٰ تعلیمی اداروں کو "مالیاتی جوابدہی اور نظریاتی توازن” کی طرف لانا ہے۔
کیا ہارورڈ کا یہ قدم دیگر یونیورسٹیوں کے لیے مثال بنے گا یا انتباہ؟
مبصرین کے مطابق، ہارورڈ جیسا طاقتور ادارہ بھی اگر مالی دباؤ کے سامنے جھک سکتا ہے، تو دیگر یونیورسٹیز پر بھی حکومتی اثر و رسوخ بڑھ سکتا ہے۔ آنے والے دنوں میں مزید تعلیمی ادارے حکومت کے ساتھ مفاہمت یا مزاحمت کا راستہ اختیار کرتے دکھائی دے سکتے ہیں۔