صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد زبیری کی جانب سے دلائل دئیے جارہے ہیں۔
جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دئیے کہ پارلیمنٹ رولز نہیں بنا سکتی اور نہ ہی رولز بنانے کے لیے قانون سازی کر سکتی ہے، موجودہ قانون کے دائرہ کار میں رولز تبدیل کرنے کا اختیار صرف سپریم کورٹ کو ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ آئین کہتا ہے کہ سپریم کورٹ کو اختیار ہے کہ وہ اپنے اصول اور طریقہ کار خود بنائے۔
وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر سماعت آج مکمل ہونے کا امکان ہے جب کہ چیف جسٹس نے بھی آج کیس مکمل کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
سماعت کے آغاز پر صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد زبیری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 191 مطابق کورٹ کے پریکٹس اینڈ پروسیجر کو ریگولیٹ کرنے کے لیے سپریم کورٹ آئین اور قانون کے تابع رولز طے کر سکتی ہے، اس لیے میری عاجزانہ رائے ہے کہ کورٹ کے پریکٹس اینڈ پراسیجر رولز کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار رکھنے والی واحد اتھارٹی پارلیمنٹ نہیں سپریم کورٹ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’قانون اور آئین کے تابع‘ کا یہ مطلب نہیں کہ پارلیمنٹ اس سلسلے میں قانون سازی کر سکتی ہے، اگر قواعد طے کرنے کے اختیار کو قانون سازی سے مشروط کر دیا جائے تو سپریم کورٹ کی قانون سازی کا اختیار ختم ہوجائے گا، قانون سازی کا آئینی اختیار ایک مسلسل طاقت سمجھا جاتا ہے، “لہذا اس پر کوئی پابندی نہیں ہوسکتی۔