اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز)سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے عبوری حکم نامے میں ردوبدل کرتے ہوئے زائد آمدنی والے ٹیکس دہندگان کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے سپر ٹیکس کا 50 فیصد براہ راست فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو ایک ہفتے میں جمع کرائیں۔
رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ایف بی آر کی عبوری حکم نامے کے خلاف درخواست کی سماعت کی جس کے تحت زیادہ آمدنی والے ٹیکس دہندگان سے ٹیکس وصولی روک دی گئی تھی۔
ایف بی آر نے کہا کہ سپریم کورٹ کا یہ حکم ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب پاکستان کے ٹیکس حکام مالی سال 2022-23 میں بڑھتے ہوئے مالیاتی فرق سے نمٹنے کے لیے آئی ایم ایف کی ٹیم کے ساتھ نئے ٹیکس اقدامات پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔ رواں مالی سال میں سپر ٹیکس کے نفاذ سے 250 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
ٹیرف کے حتمی اقدامات کا اعلان 9 فروری کو متوقع ہے، جب آئی ایم ایف کا وفد اپنی پالیسی پر بات چیت مکمل کرنے کے بعد واشنگٹن روانہ ہوگا۔
ٹیکس دہندگان نے ٹیکس سال 2022 اور اس کے بعد کے لیے سپر ٹیکس کے نفاذ کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
لاہور ہائی کورٹ نے ٹیکس وصولی پر روک لگاتے ہوئے ایف بی آر کو ہدایت کی تھی کہ سپر ٹیکس کے علاوہ مختلف صنعتوں کو ‘پوسٹ ڈیٹڈ چیک جمع کروا کر ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی اجازت دی جائے۔
حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ چیک عدالت کی ہدایت پر یا کیس کے حتمی فیصلے کے مطابق کیش کیے جائیں گے۔
تاہم لاہور ہائی کورٹ کے 29 ستمبر 2022 کے اس حکم نامے کو ایف بی آر نے ایک خاتون وکیل عاصمہ حامد کے ذریعے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
فنانس ایکٹ 2022 کے ذریعے حکومت نے انکم ٹیکس آرڈیننس میں ایک نیا سیکشن C-4 متعارف کرایا تاکہ زیادہ آمدنی والے افراد پر سپر ٹیکس عائد کیا جا سکے۔
اس سیکشن کے ذریعے، ایف بی آر نے ٹیکس سال 2022 سے 15 کروڑ روپے سے زیادہ کمانے والے 13 شعبوں پر 10 فیصد سپر ٹیکس عائد کیا۔
ان میں سٹیل، بینکنگ، سیمنٹ، سگریٹ، کیمیکل، مشروبات اور مائع قدرتی گیس کے ٹرمینلز، ایئر لائنز، ٹیکسٹائل، آٹوموبائل، شوگر ملز، تیل، گیس اور کھاد کے شعبے شامل ہیں۔
سپریم کورٹ کے حکم کے تناظر میں اب ایف بی آر کو توقع ہے کہ آنے والے مہینوں میں اس کمی کو پورا کرنے کے لیے بڑی مقدار میں ریونیو حاصل ہوگا۔