اردوورلڈ کینیڈا( ویب نیوز) پنجابی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کینیڈا کی نائب وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کرسٹیا فری لینڈ نے کہا کہ سب سے پہلے ان کی توجہ کینیڈینوں کی مدد پر مرکوز ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے وزیراعظم کی مکمل حمایت کرتی ہیں۔ وہ بہت اچھی ٹیم کی قیادت کر رہے ہیں۔
وفاقی حکومت سستی رہائش میں 1 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہی ہے، اس کے ساتھ ساتھ بلڈرز کو کم لاگت والے قرضوں میں 15 بلین ڈالر دیے جا رہے ہیں۔
یہ بات قابل غور ہے کہ ہاؤسنگ اینڈ مارگیج کارپوریشن کا تخمینہ ہے کہ کینیڈا کو 2030 تک 5.8 ملین گھر تعمیر کرنے ہوں گے تاکہ استطاعت کو بحال کیا جا سکے۔
کینیڈین جو سالانہ $250,000 سے زیادہ کماتے ہیں انہیں 25 جون سے اس آمدنی پر زیادہ ٹیکس ادا کرنا ہوں گے۔ انکم ٹیکس ایکٹ میں اس ترمیم سے امیروں پر بوجھ میں 0.13 فیصد اضافہ ہوگا اور کینیڈین کارپوریشنز اور کینیڈین جن کی اوسط آمدنی 1.42 ملین ڈالر ہے، بوجھ میں 12 فیصد اضافہ ہوگا۔ دریں اثناء سرے سینٹرل سے ممبر پارلیمنٹ رندیپ سنگھ سرائے نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے گین ٹیکس کی پوری تفصیل بتائی۔ انہوں نے کہا کہ گین ٹیکس کے حوالے سے جھوٹی افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ اس فیصلے کی اعلیٰ متوسط طبقے اور تاجروں کی طرف سے مخالفت کی جا رہی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے پارلیمنٹ کے کچھ ارکان کے نام ظاہر کرنے اور رپورٹ کی تفصیل بتانے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ کینیڈا میں غیر ملکی مداخلت کسی قیمت پر قبول نہیں کی جائے گی اور حکومت اس کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کی قومی سلامتی اور انٹیلی جنس کمیٹی کی رپورٹ میں غیر ملکی حکومتوں سے رقوم وصول کرنے اور ان ممالک کے سفارت خانوں سے غیر معقول طریقے سے رابطہ کرنے کا ذکر کیا گیا ہے تاہم ایسا کرنے والے ارکان پارلیمنٹ کی تعداد کا ذکر نہیں کیا گیا۔ رپورٹ سے ارکان پارلیمنٹ کے ناموں والا حصہ ہٹا دیا گیا ہے۔ قانون کے مطابق وزیراعظم کمیٹی کو اپنی رپورٹ کا نظرثانی شدہ ورژن پیش کرنے اور ان حصوں کو ہٹانے کی ہدایت کر سکتے ہیں جو قومی سلامتی اور بین الاقوامی تعلقات کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس انٹیلی جنس رپورٹ نے اس وقت کینیڈا کی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے اور ورلڈ سکھ آرگنائزیشن جیسی تنظیمیں متعلقہ اراکین پارلیمنٹ کے نام منظر عام پر لانے کے لیے آواز اٹھا رہی ہیں رپورٹ کے مطابق انٹیلی جنس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کچھ ارکان پارلیمنٹ کینیڈا کی سیاست میں مداخلت کرنے کی کوشش کرنے والے بھارت اور چین جیسے ممالک کی مدد کر رہے ہیں۔ دوسری جانب وفاقی حکومت فی الحال ان ارکان پارلیمنٹ کے نام منظر عام پر لانے سے گریز کر رہی ہے جن کا تعلق متعدد جماعتوں سے بتایا جاتا ہے۔