منی بجٹ سے عام آدمی کی زندگی کیسے متاثرہوگی؟مہنگائی کا دور کب ختم ہونے کا امکان ہے؟

 

اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز)وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے والے فنانس سپلیمنٹری بل 2023 یا منی بجٹ کے تحت 170 روپے اضافی ٹیکس وصول کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔

آئی ایم ایف کی سخت شرائط پوری کرنے اور بجٹ خسارہ کم کرنے کے لیے منی بجٹ میں مختلف شعبوں میں ٹیکس کی شرح بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے۔

گیس، بجلی، پیٹرول اور دیگر بنیادی ضروریات کی قیمتوں میں اضافے کے فیصلے سے حکومت کو آئی ایم ایف کا قرضہ پروگرام بحال کرنے کا امکان پیدا ہوگیا ہے، جس کی ایک ارب ڈالر سے زائد کی قسط اب تک روکی جاچکی ہے۔

تاہم معاشی ماہرین کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح میں مزید اضافے سے عام آدمی بری طرح متاثر ہوگا۔

ان کے بقول ان اقدامات سے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی بڑی حد تک ممکن ہے تاہم عام لوگوں کی آمدنی میں کمی کے باعث روزمرہ زندگی مزید مشکل ہو سکتی ہے۔

منی بجٹ میں کیا ٹیکس اقدامات کیے گئے؟

وفاقی وزیر خزانہ کی جانب سے پیش کیے گئے منی بجٹ میں 170 روپے اضافی ٹیکس وصولی کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔

اس اضافی ریونیو کے لیے سب سے زیادہ قابل ذکر سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کی شرح کو 17 سے بڑھا کر 18 فیصد کرنے کا اقدام ہے، جس کا اطلاق تمام شعبوں پر ہو گا، جبکہ لگژری اشیا پر سیلز ٹیکس کی شرح 17 سے بڑھا کر 25 فیصد کر دی جائے گی

سگریٹ اور مشروبات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح میں اضافہ کر دیا گیا ہے جبکہ سیمنٹ پر بھی 1.50 روپے فی کلو سے بڑھا کر 2 روپے فی کلو کر دیا گیا ہے۔

فرسٹ کلاس اور بزنس کلاس ایئر لائن ٹکٹوں پر بیس فیصد یا پچاس ہزار روپے، جو بھی زیادہ ہو، ایکسائز ڈیوٹی لگائی جائے گی۔

انکم ٹیکس کے زمرے میں شادی اور دیگر تقریبات پر 10 فیصد ایڈوانس ٹیکس عائد کیا گیا ہے جبکہ دوسری جانب شیئرز کی خریداری پر بھی 10 فیصد ایڈوانس ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔

وفاقی حکومت کے مطابق دودھ، دالیں، گندم، چاول اور گوشت کو سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافے سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔

منی بجٹ کے ٹیکس اقدامات مہنگائی کی شرح میں کیسے اضافہ کریں گے؟

وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے پیش کیے گئے منی بجٹ میں کیے گئے ٹیکس اقدامات میں سیلز ٹیکس کی شرح کو 17 سے بڑھا کر 18 فیصد کرنا ہے۔

ماہرین اقتصادیات کے مطابق سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافہ درحقیقت اس کی شرح میں اضافے کا سبب بنے گا کیونکہ سیلز ٹیکس استعمال پر لگایا جاتا ہے یعنی اشیا کے استعمال پر اور اس اضافے سے ان اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا جن کی قیمت ایک عام قدر ہے۔

ماہر اقتصادیات کے مطابق  سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافے سے روزمرہ کی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ درآمدی مرحلے سے سامان کی فروخت پر سیلز ٹیکس لگایا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شے درآمد کی جائے گی تو اضافی سیلز ٹیکس ادا کرنا پڑے گا، جس سے درآمد شدہ شے زیادہ مہنگی ہو جائے گی۔

اسی طرح مقامی طور پر تیار کردہ اشیا کی فروخت پر سیلز ٹیکس کی شرح میں بھی اضافہ کیا گیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ جب صارف سامان خریدے گا تو اسے اضافی قیمت ادا کرنا ہوگی۔

گندم، دالوں، گوشت وغیرہ کو اضافی سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ کرنے کے حکومتی فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پیکیجنگ میں آنے والی چیزوں پر سیلز ٹیکس لگایا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جن چیزوں کو استثنیٰ دیا گیا ہے وہ کھلی فروخت ہیں اس لیے حکومت کا یہ دعویٰ درست نہیں کہ عام آدمی کے استعمال کی چیزوں کو چھوٹ دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عام آدمی جب اپنا گیس اور بجلی کا بل ادا کرتا ہے تو اس پر سیلز ٹیکس وصول کیا جاتا ہے اور اب سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافے سے صارفین کو اضافی بل ادا کرنا ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح میں بھی اضافہ کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ درآمدی اشیا کی قیمتیں بھی بڑھ جائیں گی جو عام لوگ استعمال کرتے ہیں۔

معاشی امور کے ماہر نے بھی کہا کہ حکومت کی جانب سے اضافی سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ اشیاء کھلے عام فروخت ہوتی ہیں تاہم بہت سی ایسی اشیاء ہیں جو عام استعمال کی ہیں اور ان کو استثنیٰ حاصل ہے۔ لیکن اضافی سیلز ٹیکس صارفین کو ادا کرنا پڑے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘کھانے کا تیل، چائے وغیرہ بھی عام آدمی کے استعمال کی اشیاء ہیں جن پر اضافی ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔

سیمنٹ پر ایکسائز ڈیوٹی کی شرح میں اضافہ کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ تعمیراتی لاگت بھی بڑھے گی اور اس سے عام آدمی بھی متاثر ہوگا۔”

انہوں نے کہا کہ ‘جی ایس ٹی میں اضافے سے موبائلز کے ڈیٹا چارجز بھی بڑھ جائیں گے، یعنی کال کرنے اور انٹرنیٹ استعمال کرنے کے چارجز بھی بڑھ جائیں گے، جو آج کل عام آدمی کی اہم ضرورت ہے

اس وقت بین الاقوامی مارکیٹ میں اشیاء اور توانائی کی مصنوعات کی قیمتیں کم ہو چکی ہیں، ورنہ گھریلو صارفین کو روپے کی قدر میں کمی اور ان کی زیادہ قیمتوں کی وجہ سے اضافی سیلز ٹیکس کی بھاری قیمت چکانی پڑتی۔”

بڑھتی ہوئی مہنگائی کب رکے گی؟

پاکستان میں جنوری کے مہینے میں مہنگائی کی شرح 27 فیصد سے زائد رہی جو کہ 48 سال میں ملک میں مہنگائی کی بلند ترین شرح ہے۔ مہنگائی کی شرح میں اضافے کی بڑی وجہ ملک میں اشیائے خوردونوش، ڈیزل اور پیٹرول کی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہے۔

ملک کی افراط زر کی شرح جو کہ پہلے ہی پانچ دہائیوں کی بلند ترین سطح پر ہے،

جب تک پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام میں ہے مہنگائی کی شرح بڑھتی رہے گی کیونکہ یہ پروگرام اس طرح سے بنائے گئے ہیں کہ ممالک پابند سلاسل ہوں اور وہاں کے عوام پر مہنگائی کا اضافی بوجھ ڈالا جائے۔ .

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو  800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنا مختصر  تعارف کے ساتھ URDUWORLDCANADA@GMAIL.COM پر ای میل کردیجیے۔

امیگریشن سے متعلق سوالات کے لیے ہم سے رابطہ کریں۔

کینیڈا کا امیگریشن ویزا، ورک پرمٹ، وزیٹر ویزا، بزنس، امیگریشن، سٹوڈنٹ ویزا، صوبائی نامزدگی  .پروگرام،  زوجیت ویزا  وغیرہ

نوٹ:
ہم امیگریشن کنسلٹنٹ نہیں ہیں اور نہ ہی ایجنٹ، ہم آپ کو RCIC امیگریشن کنسلٹنٹس اور امیگریشن وکلاء کی طرف سے فراہم کردہ معلومات فراہم کریں گے۔

ہمیں Urduworldcanada@gmail.com پر میل بھیجیں۔

    اردو ورلڈ، کینیڈا میں بسنے والی اردو کمیونٹی کو ناصرف اپنی مادری زبان میں قومی و بین الاقوامی خبریں پہنچاتی ہے​ بلکہ امیگرینٹس کو اردو زبان میں مفیدمعلومات فراہم کرتی اور اردوکمیونٹی کی سرگرمیوں سے باخبر رکھتی ہے-​

     

    تمام مواد کے جملہ حقوق © 2025 اردو ورلڈ کینیڈا

    اردو ورلڈ، کینیڈا میں اشتہارات کے لئے اس نمبر پر 923455060897+ رابطہ کریں یا ای میل کریں urduworldcanada@gmail.com