اردوورلڈ کینیڈا( ویب نیوز)پاکستان میں گذشتہ ایک ماہ کے دوران پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اگرچہ حکومت معاشی اشاریوں کی بہتری کے دعوے کر رہی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ صارفین کو اب فی لیٹر پٹرول کے لیے 272.15 روپے تک ادا کرنا پڑ رہا ہے، جو اصل قیمت سے کہیں زیادہ ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تعین عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت سے مشروط ہے۔ یعنی اگر بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل مہنگا ہوتا ہے تو پاکستان میں بھی قیمتوں میں اضافہ لازمی ہے۔
قیمتوں میں حالیہ اضافے کی تفصیل
جون کے آغاز پر پٹرول کی قیمت 253.63 روپے جبکہ ڈیزل کی قیمت 254.64 روپے فی لیٹر تھی۔15 جون کو پہلی بار قیمت میں اضافہ ہوا، پٹرول 4.80 روپے اور ڈیزل 7.95 روپے فی لیٹر مہنگا ہوا۔30 جون کو پٹرول کی قیمت میں مزید 8.36 روپے اور ڈیزل میں 10.39 روپے کا اضافہ کیا گیا۔15 جولائی کو ایک بار پھر پٹرول 5.36 روپے اور ڈیزل 11.37 روپے فی لیٹر بڑھ گیا۔یوں مجموعی طور پر ایک ماہ میں پٹرول کی قیمت میں 18.52 روپے اور ڈیزل کی قیمت میں 29.71 روپے فی لیٹر کا اضافہ ہوا۔
اصل قیمت اور اضافی چارجز کا فرق
اگر پٹرول کی بنیادی قیمت دیکھی جائے تو وہ 167.51 روپے فی لیٹر ہے، جبکہ ڈیزل 177.89 روپے فی لیٹر ہے۔ لیکن جب مختلف سرچارجز، لیویز، مارجن اور دیگر مدات شامل کیے جاتے ہیں تو یہی قیمت 272.15 روپے تک پہنچ جاتی ہے۔
پٹرولیم لیوی 75.52 روپے فی لیٹرماحولیاتی لیوی: 2.50 روپے فی لیٹرڈیلرز کا مارجن: 8.64 روپے فی لیٹرآئل مارکیٹنگ کمپنیز کا منافع: 7.87 روپے فی لیٹران لینڈ فریٹ ایکولائزیشن مارجن (IFEM): پٹرول پر 2 روپے اور ڈیزل پر 4 روپے فی لیٹرایکسچینج ریٹ ایڈجسٹمنٹ: پٹرول پر 1.22 روپے اور ڈیزل پر 7 روپے فی لیٹر۔
یہ تمام اخراجات صارفین سے وصول کیے جاتے ہیں اور یہی اصل قیمت میں بھاری فرق کی بنیادی وجہ بنتے ہیں۔
عالمی منڈی میں قیمت مستحکم، لیکن پاکستان میں اضافہ کیوں؟
جون میں ایران-اسرائیل کشیدگی کے سبب عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت عارضی طور پر 75 ڈالر فی بیرل تک گئی، لیکن پھر جون کے آخر تک یہ دوبارہ کم ہو کر 68 ڈالر پر آ گئی۔ جولائی میں بھی یہ قیمت مستحکم رہی، اس کے باوجود پاکستان میں قیمتیں بڑھتی گئیں۔ماہرین کے مطابق، حکومت نے جون کے دوران بحران کے خدشے کے باعث بڑی مقدار میں تیل خرید لیا تھا۔ اُس وقت کی زیادہ قیمت آج کے صارفین پر ڈالی جا رہی ہے۔ علاوہ ازیں، ماضی میں جو ایڈجسٹمنٹس نہیں کی گئیں، وہ اب شامل کی گئی ہیں۔
اقتصادی تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت نے مہنگائی پر قابو پانے یا معیشت کی بہتری کے لیے کوئی مؤثر اصلاحات نہیں کیں۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ تین سال سے پاکستانیوں کی فی کس آمدن میں کمی آ رہی ہے، جبکہ قوت خرید میں واضح کمی آئی ہے۔ انہوں نے تنبیہ کی کہ اگر پٹرول پر 100 روپے لیوی اور 5 روپے کاربن لیوی کا وعدہ پورا کیا گیا تو قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کے باعث معاشی ترقی رک گئی ہے اور اس کا بوجھ براہِ راست عوام پر پڑ رہا ہے۔ موجودہ صورتحال ہمیں تین سال قبل کے معاشی بحران کی طرف لے جا رہی ہے۔ ان کے مطابق، جب تک حقیقی معاشی ترقی نہیں ہوگی، مہنگائی اور قیمتوں پر قابو ممکن نہیں۔