تحریر عابد علی
پاکستان جب بنا تو یہاں پر ہندو بڑی تعداد میں موجود تھے کچھ تو بھارت چلے گئے اور کچھ نے فیصلہ کیا کہ مسلمانوں کی اس دھرتی پر ہی رہنا چاہیئے، ساتھ میں سکھ اور عیسائی بھی شامل تھے۔ حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ کافی خونریزی بھی ہوئی لیکن پھر سب ملکر رہنا شروع ہو گئے، ہندووں کی بہت بڑی تعداد نے صوبہ سندھ میں ڈیرے ڈال لئے جبکہ سکھ برادری حسن ابدال اور پشاور کی جانب یعنی خیبر پختونخواہ میں منتقل ہو گئی جبکہ عیسائی پورے ملک میں موجود ہیں جبکہ ایک یا دو پارسی بھی پاکستان میں موجود ہیں کیونکہ ایک تو بہت بڑے آرٹسٹ ہیں اور بہت نفیس انسان ہیں میں ان سے مل چکا ہوں ۔ اب باقی اقلیتیں تو اپنی جگہ لیکن عیسائیوں کے کئی واقعات ہو چکے جب ریاست انکو سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہی، کچھ تو اتنے زیادہ منظر عام پر آئے کہ دنیا میں بدنامی ہوئی لیکن ریاست بالکل ٹس سے مس نہیں ہوتی، بیان داغے جاتے ہیں لیکن آن گراونڈ کچھ نظر نہیں آتا، اب سیلاب کی بات کرتے ہیں
سیلاب پاکستان کا بد ترین سیلاب ہے۔ وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے کئی مرتبہ پریس کانفرنس میں کہا کہ ملک کا ایک تہائی فیصد حصہ پانی میں ڈوب گیا لیکن میری معلومات کچھ اور ہیں جو میں اگلے آرٹیکل میں تفصیل سے بتاونگا۔ ابھی اتنا بتاتا ہوں کہ صوبہ سندھ جسمیں ہندو اقلیت کی بڑی تعداد یعنی کی مردم شماری کے مطابق ہزار ہندو آباد ہیں جو ایک بڑی تعداد ہے حکومت جو کہہ رہی ہے اسے چھوڑیں عالمی ادارے انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماونٹین ڈویلپمنٹ )ایسی موڈ) کے مطابق صوبہ سندھ کا فیصد حصہ ڈوب چکا ہے۔ اور اس ڈوبنے والے حصے میں بہت بڑی تعداد ہندوں کی بھی ہے۔ اور انکی حالات یہ ہے کہ وہ پہلے ہی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے اب وہ جینے مرنے سے بھی رہ گئے ہیں۔ اوپر چھت نہیں اور نیچے کھانے کو کچھ نہیں۔ اوپر سر پر چھت نہیں اور نیچے کھانے کو کچھ نہیں
ایک جانب صوبہ سندھ کی حکومت بہت ساری جگہوں پر خود بند توڑ رہی ہے کہ کچھ خاص علاقے بچ جائیں جسکے باعث ہندوں کی بڑی تعداد ڈوب گئی ہے۔ ایسے میں مجبور ہندو بالکل بے یارومددگار وڈیروں کے رحم و کرم پر ہیں انکے ساتھ وہاں پر کیا ہوتا ہے یہ یا وڈیرے جانتے ہیں یا پھر خود ہندو۔ البتہ شہدادپور میں ایک رکشہ والے کے واقع نے سب کی آنکھیں کھول دیں کہ ہندووں کیساتھ کیا ہو رہا ہے۔ جب ایک ہندو عورت کو راشن دینے کے بہانے رکشہ والا دو دن جنسی حوس کا نشانہ بناتا رہا۔ یہ تو ایک کہانی تھی جو پتہ نہیں کیسے نکل آئی باہر، شاید اس وجہ سے کہ دوسری جانب ایک رکشے والا تھا جبکہ اسی صوبہ سندھ میں ہندو لڑکیوں کو زبردستی مسلمان بنا کر شادی کا رواج عام ہے۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ خود مسلمان ہوتی ہیں شادی کے لئے۔ لیکن آپ جو مرضی کر لیں اگر لڑکی اپنی رضا مندی سے مسلمان نہیں ہوتی تو آپ کی شادی بھی زنا سے زیادہ کچھ نہیں۔ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں لکھ سکتا۔ اب ہماری مذہبی جماعتیں بھی بڑی زور و شور سے پوری دنیا سے امداد اکٹھی کر رہی ہیں کہ متاثرہ لوگوں کی مدد کی جائے، ہماری حکومت پر کوئی اعتبار نہیں کر رہا کیونکہ انکی کرپشن کی داستانیں عام ہیں، دوسرا ابھی تک کوئی بھی ایک سنٹرل سسٹم نہیں بنا جس کے تحت اکٹھی ہونیوالی امداد پر کچھ نظر رکھی جا سکے ایسے میں مذہبی جماعتیں بڑی کامیابی سے فنڈز اکٹھے کر رہی ہیں جس میں الخدمت فاونڈیشن اور تحریک لبیک پاکستان کے نمائندے پورے ملک سے امداد اکٹھی کر رہے ہیں۔ الخدمت بھی سیاسی جماعت کی ہے اور تحریک لبیک بھی ۔۔۔ لیکن دونوں جماعتوں نے ابھی تک کسی اقلیت کے لئے کام نہیں کیا۔ بجائے اسکے کہ وہ اس ہندو برادری کے لئے کام کرتے تا کہ ایک اچھا نمونہ پیش کیا جاتا یہ بھی فنڈز اپنے اپنے علاقوں پر لگائے جا رہے ہیں. اور ہندو اپنی عزتیں بیچ رہے ہیں صرف دو وقت کے کھانے کے لئے.
اس واقعہ پر حکومت نے نوٹس تو لے لیا رکشے والے کو سزا بھی ہو جائیگی، لیکن ہندو لڑکی کا کیا ہو گا؟ اسکی باقی زندگی کیسے گزرے گی؟ اسکا خاندان اسے قبول کریگا؟ اسکی عزت واپس لوٹائی جائیگی؟ اور کیا بقیہ ہندو، عیساء اقلیتوں کیساتھ جو کچھ ہو رہا ہے کیا اس پر حکومت کچھ کریگی؟ ان سوالات کا جواب تو نہ ہی حکومت کے پاس ہے نہ ہی میرے پاس۔۔۔ ہاں البتہ یہ جو سیلاب جاری ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ یہ ابھی ایک دو ماہ جاری رہیگا۔ اس میں اگر گہرائی میں جا کر تفتیش کیجائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسی کہانیاں اور بھی منظر عام پر آ سکتی ہیں کیونکہ ہم ایک بے حس اور لاچار حکومت کے زیر تحت زندگی بسر کر رہے ہیں۔
103