شاہد خاقان عباسی نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لیول پلیئنگ فیلڈ، لاڈلہ اور سلیکٹیڈ پلس کابیانیہ الیکشن کو مشکوک بنا دے گا۔ یہ ملک کے مفاد میں نہیں ہوگا اس لیے اس تاثر کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔
انتخابی عمل پر انگلیاں اٹھیں گی تو یہ عمل ملک کو تباہی کے راستے پر لے جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ انتخابات کو مشکوک بنا دیا گیا تو ملک نہیں چلے گا، ہم نے بارہا تجربہ کیا اور نتائج دیکھے ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا آصف زرداری کے حالیہ بیان سے بلاول بھٹو کی سیاست اور ساکھ متاثر ہوئی ہے تو سابق وزیراعظم نے کہا کہ سیاست بلاول بھٹو کی نہیں ان کی پارٹی سے ہے، بلاول بھٹو کو سر تسلیم خم کرنا ہوگا۔ کوئی بھی شخص انفرادی طور پر طاقتور نہیں ہوتا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آصف زرداری کی باتیں کافی عرصے بعد سمجھ میں آرہی ہیں، پیپلزپارٹی میں کیا ہورہا ہے، یہ 6 سے 7 ماہ بعد ہی سمجھ میں آئے گا
مبینہ ڈیل کے تحت نواز شریف کی واپسی سے متعلق سوال پر سابق وزیراعظم نے کہا کہ میاں نواز شریف کو ایک عدالت نے اشتہاری قرار دیا اور آج صرف ایک عدالت نے ضمانت دی ہے۔
آئندہ الیکشن میں حصہ نہ لینے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ وہ ملک کی موجودہ سیاست سے متفق نہیں کیونکہ یہ ملک کے مفاد میں نہیں ہے اس لیے وہ اس کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔
انہوں نے کہا کہ 2018 میں الیکشن ایک شخص کے خلاف لڑا گیا تھا لیکن آج الیکشن صرف اقتدار کے لیے لڑے جا رہے ہیں۔
شاہد خاقان عباسی نے مخلوط حکومت کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن میں کوئی جماعت اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی اور الیکشن کے بعد مخلوط حکومت بنے گی، جس میں فیصلے اتفاق رائے سے ہوتے ہیں، عمران خان نے بھی اتحاد بنایا وہ کہتے رہے کہ باجوہ صاحب انہیں کام نہیں کرنے دے رہے ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ نواز شریف دو تہائی اکثریت کا مطالبہ کس سے کر رہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ میاں صاحب عوام سے مطالبہ کر رہے ہیں جو کہ بالکل جائز ہے لیکن دو تہائی اکثریت تو دور کی بات ہے سادہ اکثریت نہیں ملے گی
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا نواز شریف وزیر اعظم بن سکتے ہیں تو سابق وزیر اعظم نے کہا کہ نواز شریف تین بار وزیر اعظم بن سکتے ہیں تو چوتھی بار بھی بن سکتے ہیں۔
شاہد خاقان عباسی سے جب 2018 میں اپنے حلقے میں انتخابی شکست کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے انکشاف کیا کہ ان کے ساتھ 30 ہزار ووٹوں میں دھاندلی کی گئی تھی اور اس بات کا اعتراف ایک پولیس افسر نے بھی کیا تھا جو بعد میں مجھ سے ملا تھا اس نے اپنے گناہ کا اعتراف کیا اور معافی مانگی۔
انہوں نے کہا کہ آج ملک اور اس کے عوام مشکلات کا شکار ہیں، اس لیے ان ارب پتیوں کو جو ’بااثر‘ ہیں چاہیے کہ ایک میز پر مل کر ملک کے مستقبل کی راہ ہموار کریں۔