عدالت نے کہا کہ کل 69 طلباء لاپتہ ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیراعظم بیرون ملک ہونے کی وجہ سے پیش نہیں ہوسکے، مزید 22 بلوچ طلبہ بازیاب ہوچکے ہیں، 28 بلوچ طلبہ تاحال لاپتہ ہیں، یقین دلاتا ہوں کہ تمام لاپتہ افراد کی بازیابی کی کوشش کی جائے گی۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ یہ بنیادی حقوق کا معاملہ ہے، جو پاکستان کے دل سے کیا جا رہا ہے، اس کیس میں تمام طلبہ ہیں، وہ ہمارے اپنے شہری ہیں، سارا الزام ریاستی ادارے پر آرہا ہے، مجھے بتائیں۔ یا تو کسی دوسرے ملک کی ایجنسی نے ملازمین کو اٹھایا، ایک مخصوص ادارے پر الزامات ہیں، کیا تحقیقات بھی وہی کرے ؟ اگر ریاستی ادارہ کچھ کرے گا تو ان کے خلاف قانونی کارروائی کون کرے گا، ان میں سے کوئی دہشت گرد ہے تو کارروائی کریں،
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ بلوچستان کا بندہ لاپتہ ہو جاتا ہے اور یہاں انتظامیہ دفعہ 365 کے تحت ایک کارروائی کرتی ہے اور منہ دوسری طرف کر لیتی ہے۔ جسے چاہیں برسوں سے لے جائیں، پھر تھانہ آبپارہ کے ایس ایچ او کے حوالے کر دیں، کیا یہ باتیں کسی مہذب معاشرے میں ہوتی ہیں، ہر لاپتہ شخص جو بازیاب ہو کر آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں کیس کی پیروی نہیں کرنا چاہتا۔ بند کمروں میں کسی کی نہیں سنوں گا، کھلی عدالت میں کیا کہوں؟
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ پولیس شخص کو لے جاتی ہے، بعد میں وہ شخص لاپتہ ہو جاتا ہے، جب تھانے جاتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ شخص وہاں نہیں ہے، جبری گمشدگی کے کیسز میں عوام آپ کے اپنے اداروں کے ساتھ ہیں، سیکرٹری دفاع ذمہ دار ہے کہ ان کے ادارے ایسے کسی کام میں ملوث نہ ہوں، جبری گمشدگیوں کے کیسز حل کرکے انہیں رہا کریں یا عدالت میں پیش کریں، کسی ریاستی ادارے کو ذمہ دار ٹھہرا کر کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟
نگراں وزیر داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ ایک بھی شخص لاپتہ ہے، کوئی جواز نہیں، ہم اپنی ذمہ داری پوری کریں گے، بہت سے ایسے ہیں جو انصاف سے بھاگے ہیں، کچھ لوگ افغانستان گئے ہیں، ایسے بہت سے کیسز ہیں۔ ان میں وہ سیکورٹی فورسز کے ساتھ لڑتے ہوئے مارے گئے۔
وزارت داخلہ نے لاپتہ افراد کے معاملے پر ایڈیشنل سیکرٹری کو فوکل پرسن مقرر کر دیا ہے۔ عدالت نے درخواست گزار کو تمام لاپتہ افراد کی تفصیلات فوکل پرسن کو فراہم کرنے کا حکم دیا۔
لاپتہ بلوچ شخص کی بہن اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں اور عدالت کے سامنے تقریر کرتے ہوئے رو پڑیں۔ انہوں نے کہا کہ آصف بلوچ اور کزن رشید بلوچ کو 2018 میں گرفتار کیا گیا، سرفراز بگٹی کہتے ہیں یہ چھوٹا مسئلہ ہے،
جسٹس محسن اختر کیانی نے خبردار کیا کہ اگر ہم سب اغوا ہو جائیں تو کیا ہم سمجھیں گے؟ اگر اگلی تاریخ کو لاپتہ افراد بازیاب نہ ہوئے تو وزیراعظم، وزیر داخلہ اور سیکرٹری دفاع و داخلہ کے خلاف اندراج مقدمہ کا حکم دوں گا، پھر آپ سب کو اور وزیراعظم کو گھر جانا پڑے گا، میں سمجھا رہا ہوں آپ کو بہت واضح الفاظ میں. سیکرٹری دفاع اور سیکرٹری داخلہ بھی ذمہ دار ہوں گے، مجھے نتیجہ چاہئے، کیا یہ لڑکی اگلی سماعت پر کہے کہ میرا بھائی واپس آگیا ہے، ان سے ملو، انہیں فون کرو یا پریس کلب جا کر ان کی بات سنو۔
نگراں وزیر داخلہ نے جواب دیا کہ میں دو روز میں ان سے ملاقات کروں گا اور کھانے پر مدعو کروں گا۔