اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز )سپریم کورٹ میں ملک بھر میں ایک ہی دن انتخابات کے انعقاد سے متعلق درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے ہیں کہ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس معاملے کو سیاسی عمل پر چھوڑ دینا چاہیے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ملک بھر میں ایک ہی دن انتخابات کرانے سے متعلق درخواست کی سماعت کی، بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ مذاکرات ناکام ہوئے تو عدالت کے 14 مئی کے فیصلے پر نہیں بیٹھیں گے، اپنے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے آئین کا استعمال کرسکتے ہیں۔
مذاکرات میں کیا ہوا؟ سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرا دی گئی
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم بھی کچھ کہنا چاہتے ہیں، عدالت میں معاملہ آئینی ہے سیاسی نہیں، عدالت سیاسی معاملہ سیاسی جماعتوں پر چھوڑتی ہے۔
چیف جسٹس نے فاروق نائیک سے کہا کہ بتائیں آئی ایم ایف معاہدے اور تجارتی پالیسی کی منظوری کیوں ضروری ہے۔ اس پر فاروق نائیک نے کہا کہ بجٹ کے لیے آئی ایم ایف سے قرض لینا ضروری ہے، اسمبلیاں نہ ہوں گی تو بجٹ منظور نہیں ہوگا، پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل نہ ٹوٹتی تو بحران پیدا نہ ہوتا۔ بحران کے باعث عدالت کا وقت بھی ضائع ہوہرا ہے
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آئی ایم ایف کا قرضہ سرکاری فنڈز کے ذخائر میں استعمال ہوگا یا قرضوں کی ادائیگی میں؟ اس پر فاروق نائیک نے کہا کہ یہ جواب وزیر خزانہ ہی دے سکتے ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اسمبلی تحلیل ہونے پر بھی آئین بجٹ کے لیے 4 ماہ کا وقت دیتا ہے، اخبار میں پڑھا کہ آئی ایم ایف پیکج کے بعد دوست ممالک تعاون کریں گے، پی ٹی آئی نے بجٹ کی اہمیت تسلیم کی یا مسترد کی ؟ آئین میں انتخابات کے لیے 90 دن کی حد سے کوئی انکار نہیں کرسکتا، یہ عوامی اہمیت کے حامل آئین کے نفاذ کا معاملہ ہے، عدالت نے 90 دن میں انتخابات کرانے کا فیصلہ دے دیا، دونوں فریقین کا مؤقف گزشتہ ٹی وی پر سنا مذاکرت ناکام ہوئے تو 14 مئی کے فیصلوں پر عدالت چپ نہیں بیٹھے گی، آئین کے مطابق اپنے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے آئین کو استعمال کر سکتے ہیں، عدالت اپنا فرض ادا کر رہی ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ حکومت نے کبھی فیصلہ لینے کی کوشش نہیں کی، فور اور تھری کی بحث میں لگے ہوئے ہیں، جسٹس اطہرمن اللہ نے اسمبلیوں کی بحالی کا نکتہ اٹھایا تھا لیکن حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں۔ گفتگو دیکھیں، کوئی فیصلہ یا قانون پر بات نہیں کر رہا، حکومت کی سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ اس نے ابھی تک نظرثانی کی درخواست دائر نہیں کی، حکومت قانون میں نہیں سیاست میں دلچسپی دکھا رہی ہے۔