اردوورلڈ کینیڈا( ویب نیوز)امریکی ایوان نمائندگان میں پاکستانی ریاستی حکام پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے ایک بل پیش کیا گیا ہے، جس میں پاکستان پر سابق وزیر اعظم عمران خان کے ظلم و ستم سمیت انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کا الزام لگایا گیا ہے۔.
رپورٹ کے مطابق یہ بل جسے ‘پاکستان ڈیموکریسی ایکٹ کہا جاتا ہے، جنوبی کیرولینا سے ریپبلکن کانگریس مین جو ولسن اور کیلیفورنیا سے ڈیموکریٹ جمی پنیٹا نے پیش کیا تھا۔.
اسے مزید غور و خوض کے لیے ایوان کی خارجہ امور اور عدلیہ کی کمیٹیوں کو بھیجا گیا ہے۔.مجوزہ بل میں کہا گیا ہے کہ اگر پاکستان انسانی حقوق کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات نہیں کرتا تو 180 دنوں کے اندر پاکستان کے آرمی چیف پر پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔.
یہ بل یو ایس گلوبل میگنٹسکی ہیومن رائٹس اکاونٹیبلٹی ایکٹ کو استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے، جو امریکہ کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگانے والے افراد کو ویزا اور داخلے سے انکار کرنے کی اجازت دیتا ہے۔.
مسودہ بل میں امریکی انتظامیہ سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ پاکستان میں سیاسی مخالفین کو دبانے میں مبینہ طور پر ملوث اہم افراد کی شناخت کرے اور انہیں پابندیوں کی فہرست میں شامل کرے۔.
اگر پاکستان گورننس میں فوجی مداخلت کو روکتا ہے اور تمام ‘غلط طریقے سے حراست میں لیے گئے سیاسی قیدیوں کو رہا کرتا ہے تو اس سے امریکی صدر کو ان پابندیوں کو ہٹانے کا مزید اختیار ملے گا۔.مسودہ بل امریکہ میں پاکستان تحریک انصاف کی مصروفیت کو اجاگر کرتا ہے جو 2022 میں عمران خان کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد سے امریکی قانون سازوں سے لابنگ کر رہے ہیں۔.گزشتہ 3 سالوں کے دوران ، پی ٹی آئی کے کارکنوں نے مظاہرے کیے، کانگریس کے اراکین سے ملاقاتیں کیں، اور پاکستان کے سیاسی معاملات میں امریکی مداخلت پر زور دیا۔.
اسی طرح کی ایک قرارداد جون 2024 میں ایوان نمائندگان میں دو طرفہ حمایت کے ساتھ منظور کی گئی تھی، جس کے حق میں 98 فیصد ووٹ پڑے تھے۔. قرارداد میں اس وقت کے صدر جو بائیڈن پر زور دیا گیا کہ وہ پاکستان پر جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لیے دباؤ ڈالیں، لیکن بائیڈن انتظامیہ نے جواب میں کوئی کارروائی نہیں کی۔.و
اشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے نے اب تک اس بل پر تبصرہ کرنے یا یہ بتانے سے انکار کیا ہے کہ وہ اس تازہ اقدام کا مقابلہ کرنے کا ارادہ کیسے رکھتا ہے۔.تاہم سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکام سفارتی ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے قانون سازی پر مزید کارروائی میں تاخیر کی کوشش کر سکتے ہیں۔.
پیر کی رات پاکستانی سفارت خانے میں ایک سفارتی استقبالیہ میں بھی اس بل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔.اگرچہ پاکستانی سفارت کاروں نے اس پیش رفت پر تشویش کا اعتراف کیا ہے، لیکن وہ پر امید ہیں کہ یہ بل نافذ کرنے کے لیے کافی توجہ حاصل نہیں کرے گا۔
اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ واشنگٹن اب بھی پاکستان کو ایک اہم سیکیورٹی پارٹنر کے طور پر دیکھتا ہے۔